ذكر كا دورانيہ بڑھانے كے ليے كتاب و سنت كى دعاؤں سے معين تعداد ميں ورد كا اختراع كرنا

 

 

 

كيا كتاب و سنت سے ثابت شدہ روز مرہ دعاؤں كا ايك معين تعداد ميں ورد كرنا جائز ہے تا كہ عبادت كا وقت زيادہ كيا جا سكے، اور جتنا ممكن ہو مسجد ميں بيٹھا جائے، اور اس كى دليل كيا ہے ؟

الحمد للہ:

مسلمان كے ليے كثرت سے اللہ كا ذكر كرنا مستحب ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اے ايمان والو اللہ كا ذكر كثرت سے كيا كرو، اور صبح و شام اس كى پاكيزگى بيان كرو }الاحزاب ( 41 / 42 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:

{ اور بكثرت اللہ كا ذكر كرنے والے اور ذكركرنے والياں ان كے ليے اللہ تعالى نے مغفرت اور اجر عظيم تيار كر ركھا ہے } الاحزاب ( 35 ).

اس موضوع كى آيات بہت زيادہ ہيں، اور اسى طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى ذكر كرنے كى وصيت كرتے ہوئے فرمايا:

" ہر وقت تيرى زبان اللہ كے ذكر كے تر رہنى چاہيے "

اسے ترمذى نے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 2687 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ اذكار اور دعائيں دو قسم كى ہيں:

پہلى قسم:

جو معين تعداد ميں وارد ہيں، اس ميں اسى تعداد كا خيال ركھا جائے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے وارد ہے، نہ تو اس ميں كمى كى جائے اور نہ ہى زيادہ، مثلا نماز كے بعد والے اذكار اور صبح و شام كے وقت سو بار سبحان اللہ و بحمدہ، اور دن ميں ايك مرتبہ سو بار لا الہ اللہ وحدہ لا شريك لہ لہ الملك و لہ الحمد و ھو على كل شيئ قدير وغيرہ.

دوسرى قسم:

جس كى كوئى معين تعداد نہيں، مثلا تسبيح و تحميد كى مطلقا ترغيب دلائى گئى ہے كہ سبحان اللہ الحمد للہ اور اللہ اكبر كہا جائے، اور قرآن مجيد كى تلاوت كرنا.

تو انسان اس كو بغير كسى معين تعداد كا التزام كيے بغير مطلقا كر سكتا ہے جيسا نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع كيا ہے.

مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" اذكار اور دعاؤں ميں اصل توقيف ہے ( يعنى شخص كو اسى طرح اذكار كرنا ہونگے جس طرح شريعت نے بيان كيا ہے ) چنانچہ وہ اللہ كى عبادت اس طرح ہى كريگا جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زبان مبارك سے ثابت ہے.

اس بنا پر جو قولى يا عملى سنت سے وقت كے ساتھ مقيد ہو يا عدد يا جگہ كے ساتھ مقيد ہو يا كيفيت كے ساتھ تو ہم اسى طرح عبادت كرينگے جو شريعت سے ثابت ہے، اور شريعت نے جو اذكار اور دعائيں اور سارى عبادات مطلقا مشروع كى ہيں اسے تعداد يا جگہ يا وقت يا كيفيت كے ساتھ مقيد نہيں كيا تو ہمارے ليے اس ميں وقت يا تعداد يا جگہ يا كيفيت كا التزام كرنا جائز نہيں، بلكہ جس طرح مطلقا وارد ہے اسى طرح عبادت كرينگے"

ديكھيں: فتاوى اسلاميہ ( 4 / 178 ).

اس موضوع كے متعلق مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 21902 ) اور ( 22457 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ تعالى اعلم، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

واللہ اعلم .

 

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ