تنگى اور شدت كے اوقات ميں پڑھنے كے ليے كچھ سورتوں سے بعض آيات كى تخصيص
ميں آپ سے قرآن كريم كى بعض آيات كے متعلق دريافت كرنا چاہتا ہوں جن كے متعلق شدت اور سختى كے اوقات اور مالى مشكلات ميں پڑھنے كى نصيحت كى گئى ہے جسے ہم اردو ميں " منازل " كا نام ديتے ہيں، ميں يہ معلوم كرنا چاہتا ہوں آيا اس پر عمل كرنا جائز ہے ؟
اسے پڑھنے كا سبب كا يہ ہے كہ گويا آپ اللہ سے دعا كر رہے ہيں وہ آيات درج ذيل ہيں:
سورۃ فاتحہ كى آيت، اور سورۃ بقرۃ كى آيات نمبر ( 1 - 5 ) اور ( 163 ) اور ( 255 - 257 ) اور ( 284 - 286 ) اور آل عمران آيت نمبر ( 18 ) اور ( 26 ) اور ( 27 ) اور الاعراف آيت نمبر ( 54 - 56 ) سورۃ بنى اسرائيل آيت نمبر ( 110 - 111 ) سورۃ المومنون آيت نمبر ( 115 - 118 ) اور سورۃ الصافات آيت نمبر ( 1 - 11 ) سورۃ الرحمن آيت نمبر ( 33 - 40 ) سورۃ الحشر آيت نمبر ( 21 - 24 ) سورۃ الجن آيت نمبر ( 1 - 4 ) اور سورۃ الكافرون اور سورۃ الفلق اور سورۃ الناس اور سورۃ الاخلاص. ؟
الحمد للہ:
بغير كسى شرعى دليل كے قرآن كريم كى مخصوص آيات كسى مخصوص غرض كے ليے پڑھنا ہم جائز نہيں سمجھتے، اگر كوئى صحيح حديث كسى معين سورۃ كے فضائل ميں آئے اور مسلمان شخص اس فضيلت اور فائدہ كو حاصل كرنے كے ليے پڑھے تو جائز ہے.
ليكن كوئى شخص خود قرآن مجيد ميں سے بعض آيات كو چن لے اور اسے مشكلات كا حل اور مصائب سے چھٹكارا قرار دے، اور ان كو معاون سمجھے، بلكہ وہ اسے كسى كتاب ميں لكھ دے اور اسے مسلمان كے ليے وضائف اور مستحب قرار دے تو يہ اتباع كى بجائے ابتداع يعنى بدعت كے زيادہ نزديك ہے، اور مسلمان شخص كے ليے اس سے بچنا اور اجتناب كرنا اولى ہے اور اس پر عمل نہيں كرنا چاہيے.
قرآن مجيد سارے كا سارا خير و بركت اور اجروثواب كا باعث ہے، ليكن كسى معين آيت كا كوئى معين اثر كا دعوى كرنا، خاص كر اس قائل كا جو گمان ہے كہ يہ آيات شدت اور سختى كے اوقات ميں مشكلات سے نجات اور مالى مشكلات سے نكالنے كا باعث ہيں، اس كى دليل ضرورى ہے، اور اس كتاب كے مؤلف كے پاس كوئى دليل نہيں جو اس نے بيان كيا ہے، اس ليے اس ليے اس پر متنبہ رہنا ضرورى ہے.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
يوگنڈا ميں جب كوئى شخص اپنے پروردگار سے دعا كرتا ہے اور خاص كر كشادگى رزق كى دعا تو وہ چند طلبا كو بلاتا ہے اور وہ جب آتے ہيں تو ہر ايك كے پاس سپارہ ہوتا ہے، اور قرآن كى قرآت كرنا شروع كرتے ہيں، ايك سورۃ يس كى تلاوت كرتا ہے اس ليے كہ يہ قرآن كا دل ہے، اور دوسرا سورۃ الكہف پڑھتا ہے اور تيسرا سورۃ الواقعۃ يا الرحمن يا الدخان يا المعارج، نون تبارك يعنى سورۃ الملك يا النساء كى تلاوت كرتا ہے، اور اس كے بعد دعاء ہوتى ہے، تو كيا يہ طريقہ اسلام ميں مشروع ہے اور اگر اس كے برعكس ہے تو مشروع طريقہ كيا ہے، اور اس كى دليل بھى ديں ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" قرآن مجيد كو غور و فكر اور تدبر كے ساتھ تلاوت كرنا افضل ترين تقرب كا ذريعہ ہے، اور اللہ تعالى كى طرف رجوع كرنا اور خير و بركت اور رزق ميں وسعت كى دعا كرنا خير كى انواع اور مشروع عبادت ہے.
ليكن اس طريقہ پر قرآن كى تلاوت كرنا جو سوال ميں بيان كيا گيا ہے ـ مخصوص سورتيں كئى ايك اشخاص كو پڑھنے كے ليے دينا، ہر ايك سورۃ پڑھے اور بعد ميں وسعت رزق كى دعا كرے ـ يہ بدعت ہے؛ كيونكہ ايسا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے نہ تو عملى طور پر ثابت ہے، اور نہ ہى قولى طور پر، اور نہ ہى صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم سے بلكہ آئمہ سلف سے بھى يہ ثابت نہيں ہے.
اور پھر خير و بھلائى اور بہترى تو سلف رحمہ اللہ كى اتباع اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ پر عمل كرنے ميں ہے، اور دين ميں نيا كام نكالنا بدعت اور شر ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے آپ نے فرمايا:
" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا نيا كام نكالا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "
اللہ تعالى سے ہر وقت اور ہر جگہ اور ہر حالت ميں چاہے شدت و سختى ہو يا آسانى ميں دعا كرنى مشروع ہے، اور جس ميں شريعت ميں دعا كرنے كى رغبت دلائى ہے، اور پھر سجدہ ميں اور سحرى كے وقت اور نماز كے آخر ميں سلام سے قبل دعا كرنے پر ابھارا ہے.
صحيح حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ثابت ہے:
" ہمارا پروردگار رب ذوالجلال ہر رات جب ايك تہائى رات باقى رہ جاتى ہے تو آسمان دنيا پر نزول كرتا اور فرماتا ہے:
كون ہے جو مجھ سے دعا كرے اور ميں اس كى دعا قبول كروں، كون ہے جو مجھ سے مانگے اور ميں اسے عطا كروں، كون ہے جو مجھ سے بخشش طلب كرے اور ميں اسے بخش دوں "
صحيح بخارى اور صحيح مسلم.
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" رہا ركوع تو اس ميں رب ذوالجلال كى عظمت بيان كرو، اور رہا سجدہ تو اس ميں دعا زيادہ كوشش سے كرو، اميد ہے تمہارى دعا قبول ہو جائے "
اسے احمد اور مسلم اور نسائى اور ابو داود نے روايت كيا ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" بندہ رب كے سب سے زيادہ قريب سجدہ كى حالت ميں ہوتا ہے، اس ليے دعا كثرت سے كرو "
اسے مسلم اور ابو داود اور نسائى نے روايت كيا ہے.
اور صحيحين ميں ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں تشھد سكھائى تو انہيں فرمايا:
" پھر تمہيں جو دعا پسند ہو اور اچھى لگے اس سے دعا كرو "
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 2 / 486 ).
ہم نے اپنى اس ويب سائٹ پر سوال نمبر ( 71183 ) كے جواب ميں قرض كى ادائيگى ميں ممد و معاون بعض وہ ادعيہ ذكر كى ہيں جو صحيح احاديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہيں، آپ سے گزارش ہے اس كا مطالعہ كريں.
اور مزيد آپ سوال نمبر ( 3219 ) اور ( 22457 ) اور ( 87915 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ