يوم الجمعہ كے فضائل
باقى ايام سے جمعہ كے دن كو كيا امتيازى حيثيت حاصل ہے، اور يہ امتياز كيوں ہے ؟
الحمد للہ :
يوم الجمعہ كے بہت سے فضائل اور امتيازات ہيں، اللہ تعالى نے باقى ايام پر جمعہ كو عظيم فضيلت دى ہے.
ابو ہريرہ اور حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى نے ہم سے پہلے لوگوں جمعہ سے دور ركھا، تو يہوديوں كے ليے ہفتہ كا دن، اور عيسائيوں كے ليے اتوار كا دن تھا، اللہ تعالى ہميں لايا تو اس نے ہميں جمعہ كے روز كى ہدايت دى اور جمعہ اور پھر اس كے بعد ہفتہ اور اس كے بعد اتوار ركھا، اور اسى طرح روز قيامت بھى وہ ہمارے پيچھے ہونگے، ہم دنيا ميں آخرى ہيں، اور قيامت كے روز پہلے ہونگے، جن كا سب مخلوق سے قبل فيصلہ ہو گا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 856 ).
قاضى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
ظاہر يہى ہوتا ہے كہ: اللہ تعالى نے ان پر بغير كسى تعيين كے جمعہ كى تعظيم فرض كى اور ان كے اجتھاد پر چھوڑ ديا تا كہ وہ اس ميں اپنى عبادت اور شريعت كا اہتمام كريں، تو اس كى تعيين ميں ان كے اجتھاد ميں اختلاف پيدا ہو گيا اور اللہ تعالى نے اس كى ہدايت نہ دى، اور اللہ تعالى نے اسے واضح اور بيان كے ساتھ اس امت پر فرض كر ديا، اور ان كے اجتھاد پر نہيں چھوڑا تو اس طرح وہ اس كى فضيلت كے حصول ميں كامياب ہو گئے.
ان كا كہنا ہے: بيان كيا جاتا ہے كہ: موسى عليہ السلام آئے اور انہيں جمعہ كا حكم ديا اور انہيں اس كى فضيلت بتائى تو انہوں نے ان سے مناظرہ كيا كہ ہفتہ كا دن افضل ہے، تو موسى عليہ السلام كو كہا گيا: انہيں چھوڑ ديں.
قاضى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اور اگر يہ منصوص ہوتا تو اس ميں ان كا اختلاف صحيح نہ تھا، بلكہ وہ كہتے: اس ميں انہوں نے اختلاف كيا، ميں كہتا ہوں: يہ ممكن ہے كہ انہيں اس كا صريحا حكم ديا گيا ہو، اور بعينہ اس پر نص ہو تو اس ميں انہوں نے اختلاف كيا ہو كہ كيا اس كى تعيين لازم ہے يا اسے بدلا جا سكتا ہے ؟ اور انہوں نے اسے بدل ليا ہو، اور بدلنے ميں غلطى كر لى ہو. اھـ
اور اس ميں بھى كوئى تعجب كى بات نہيں كہ ان كے ليے بعنيہ جمعہ كا ذكر كيا گيا ہو اور پھر وہ مخالف كرنے لگيں.
حافظ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
يہ كيسے نہيں ہو سكتا، حالانكہ وہى يہ كہنے والے ہيں: ہم نے سن ليا اور نافرمانى كى. !! اھـ
اوس بن اوس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تمہارے ايام ميں سے افضل ترين يوم جمعہ ہے، اسى دن آدم عليہ السلام كو پيدا كيا گيا، اور اسى ميں انہيں موت آئى، اور اسى روز صور پھونكا جائيگا اور اسى ميں بے ہوشى طارى ہو گى، لہذا اس روز كثرت سے مجھ پر درود پڑھا كرو، كيونكہ تمہارا درور مجھ پر پيش كيا جاتا ہے.
تو صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ ہمارا درور كيسے پيش كيا جائيگا حالانكہ آپ تو مٹى ميں مل چكے ہونگے؟
تور سول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يقينا اللہ تعالى نے زمين پر انبياء كے جسم كھانے كو حرام كر ركھا ہے"
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1047 ) ابن قيم رحمہ اللہ تعالى نے سنن ابو داود كى تعلقات ( 4 / 273 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ( 925 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" سورج طلوع ہونے والے ايام ميں سب سے بہترين جمعہ كا روز ہے، اس ميں آدم عليہ السلام پيدا ہوئے، اور اسى دن جنت ميں داخل كيے گئے، اور اسى روز وہاں سے نكالے گئے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1410 ).
مندرجہ بالا احاديث ميں جمعہ كى فضيلت كے بعض اسباب بيان كيے گئے ہيں:
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
قاضى عياض رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: ظاہر يہى ہے كہ يہ معدود اور چند فضائل اس كى فضيلت ذكر كرنے كے ليے نہيں، كيونكہ آدم عليہ السلام كا جنت سے نكالا جانا، اور قيامت كا قائم ہونا، فضيلت ميں شمار نہيں ہوتا، بلكہ يہ تو اس روز واقع ہونے والے بعض عظيم امور ميں سے ہيں، اور يا پھر وہ ہيں ابھى وقوع پذير ہونگے، تا كہ اس روز بندہ اللہ تعالى كى رحمت كے حصول اور اس كے غضب سے چھٹكارا حاصل كرنے كے ليے اعمال صالحہ كرنے كے ليے تيار ہو، يہ قاضى رحمہ اللہ كى كلام تھى.
اور ابو بكر بن العربى اپنى كتاب: ترمذى كى شرح الاحوذى ميں لكھتے ہيں:
يہ سب فضائل ہى ہيں، آدم عليہ السلام كا جنت سے نكلنا ذريت اور اس عظيم نسل، اور رسل و انبياء اور صالحين اور اولياء كے وجود كا سبب ہے، آدم عليہ السلام كو جنت سے راندہ درگاہ اور دھتكار كر نہيں نكالا گيا، بلكہ كچھ حاجات اور ضروريات پورى كرنے كے ليے نكالا گيا، پھر وہ جنت ميں واپس چلے جائينگے.
اور قيامت كا قائم ہونا اس كا سبب انبياء و صالحين اور اولياء وغيرہ كو جلد بدلہ دينے اور ان كى عزت و تكريم اور شرف كے اظہار كا سبب ہے، اور اس حديث ميں باقى سارے ايام پر يوم الجمعہ كو فضيلت اور امتياز حاصل ہے. اھـ
ابو لبابہ بن عبد المنذر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جمعۃ المبارك سب ايام كا سردار ہے، اور اللہ تعالى كے ہاں ان ايام ميں عظيم دن ہے، اور اللہ تعالى كے ہاں يہ دن عيد الفطر اور عيد الاضحى سے بھى عظيم ہے، اس ميں پانچ خصلتيں اور امتيازات ہيں:
اللہ تعالى نے اس روز آدم عليہ السلام كو پيدا فرمايا، اور اسى روز آدم عليہ السلام كو زمين كى طرف اتارا گيا، اور اسى روز آدم عليہ السلام فوت ہوئے، اور اس روز ميں ايك ايسا وقت اور گھڑى ہے جس ميں بندہ اللہ تعالى سے جو بھى مانگتا ہے اللہ تعالى اسے عطا فرماتا ہے، جب كہ حرام كا سوال نہ كيا جائے، اور اسى روز قيامت قائم ہو گى، مقرب فرشتے، اور آسمان و زمين اور ہوائيں، اور پہاڑ اور سمندر يہ سب جمعہ كے روز سے ڈرتے ہيں"
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1084 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2279 ) ميں اسے حسن كہا ہے.
سندھى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" جمعہ كے روز سے ڈرتے ہيں " يعنى اس ميں قيامت كے قائم ہونے سے، اور اس ميں يہ بھى ہے كہ سارى مخلوقات بعنيہ ايام كا علم ركھتى ہيں، اور انہيں علم ہے كہ قيامت جمعہ كے دن قائم ہو گى. اھـ
اس روز كے فضائل ميں درج ذيل بھى ہيں:
1 - اس روز سب سے افضل نماز نماز جمعہ ادا كى جاتى ہے:
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿اے ايمان والو! جب جمعہ كے روز نماز جمعہ كے ليے اذان دى جائے تو اللہ تعالى كے ذكر كى طرف دوڑے آؤ اور خريد وفرخت چھوڑ دو، يہ تمہارے ليے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو ﴾الجمعۃ ( 9 ).
امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" نماز پنجگانہ اور جمعہ دوسرے جمعہ تك ان كے درميان ( گناہوں ) كا كفارہ ہے، جب تك كبيرہ گناہ كا ارتكاب نہ كيا جائے"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 233 ).
2 - جمعہ كے روز نماز فجر باجماعت ادا كرنا پورے ہفتہ ميں بندے كى ادا كردہ نمازوہ سے بہتر ہے.
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى كے ہاں افضل ترين نماز جمعہ كے روز باجماعت نماز فجر كى ادائيگى ہے "
اسے بيھقى نے شعب الايمان ميں روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 1119 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
جمعہ كے روز نماز فجر كى خصوصيت يہ ہے كہ اس روز نماز فجر كى پہلى ركعت ميں سورۃ السجدہ اور دوسرى ركعت ميں سورۃ الانسان پڑھى جاتى ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جمعہ كے روز نماز فجر كى پہلى ركعت ميں الم تنزيل اور دوسرى ركعت ميں ھل اتى على الانسان حين من الدھر لم يكن شيئا مذكورا تلاوت كى"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 851 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 880 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
كہا جاتا ہے كہ: ان سورتوں كى تلاوت ميں حكمت يہ ہے كہ: ان دو سورتوں ميں آدم عليہ السلام كى پيدائش اور روز قيامت كے احوال كا ذكر اور اس كى طرف اشارہ ہے، كيونكہ يہ جمعہ كے روز ہوا اور اس كا وقوع بھى اسى روز ہو گا. اھـ
3 - جو شخص جمعہ كے روز يا جمعہ كى رات فوت ہو جائے اللہ تعالى اسے قبر كے فتنہ سے محفوظ ركھتا ہے.
عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو مسلمان شخص بھى جمعہ كے روز يا جمعہ كى رات فوت ہو اللہ تعالى اسے قبر كے فتنہ سے محفوظ ركھتا ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1074 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے " احكام الجنائز صفحہ نمبر ( 49 - 50 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
جمعہ المبارك كے دن كے يہ چند ايك فضائل تھے جو بيان كيے گئے ہيں اللہ تعالى ہميں اپنى خوشنودى و رضا كے كام كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ