دین اسلام میں عورت کے ساتھ معاملات
میں اسلام کاراہی بننے کی راہ پرچل نکلا ہوں اس لیے مجھے اس عرصے کےبارہ میں جومیں نے اسلامی سوچ سے قبل گزارا ہے قلق لگا رہتا ہے اورمجھے یہ خدشہ ہے کہ میں اپنے سابقہ تجربوں کی بنا پراللہ تعالی کے صحیح راستے پرنہیں چل سکوں گا ۔
مجھے آپ اس شدید صراحت کی معافی دیں میں تومتردد ہوں کہ دین اسلام تومردوں اورعورتوں کومکمل تعلقات استوار کرنے کی کھلی چھٹی نہیں دیتا اس لیے میں محسوس کرتا ہوں کہ اسلام سے قبل ہی یہ مقابلہ مجھے ہلاک کرکے رکھ دے گا اورمیرے اندرکوکھوکھلاکردے گا ۔
میرے توپہلے بہت سارے تجربات ہیں اوراب میں بہت زيادہ پڑھتا ہوں کہ یہ تجربات وتعلقات اسلام میں حرام ہیں ، تویہ کیسے ممکن ہے کہ میں اپنی رغبتوں اور دین اسلام میں عورتوں سے تعلقات کی ممانعت میں تطبیق اورموافقت قائم کرسکوں ؟
الحمد للہ:
اے کریم سائل ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ ہم آپ کے بارہ میں اپنے رشک اورہمارے دلوں میں جوآپ کی قدرومنزلت ہے اسے چھپاناممکن نہیں ، اورہمیں اس بات کی بہت خوشی ہوئ ہے کہ آپ کے سوال سے ایسے دلائل ظاہرہوتے ہيں جودین حق جوکہ دین اسلام ہے قبول کرنے کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔
اورآپ نے جوتردد اورحیرت کا اظہارکیا ہے وہ ایک مفہوم اورسمجھ میں آنے والا معاملہ ہے ، اس لیے کہ جب کوئ شخص حرام تعلقات کی دلدل میں دھنسا ہوا ہواورپھرپاک صاف اورعفت وعصمت والے دین کی طرف منتقل ہونا چاہے تووہ اس کا خدشہ محسوس کرتا ہے کہ اس کا نفس اس پرغالب آ جاۓ گا اوروہ اس طہارت و عفت اور عصمت وپاکیزگی کے ساتھ وفا نہیں کرسکےگا جس کا مطالبہ اس سے اسلام کرتا ہے ۔
لیکن ہم آپ کے سامنے ذیل میں ایسا معاملہ پیش کرتے ہیں جوآپ کو پیش آنے والی مشکلات کوعبور کرنے میں ممد ومعاون ثابت ہوگا اورآپ کوموقف کےلیے صحیح اورصاف شفاف تصوردے گا ۔
مفروض یہ ہے کہ جوبھی دین حق کا پیروکار ہوتا ہے اس کے نفس اور اخلاق پراس دین کا اثرہو وہ اس طرح کہ یہ دین اس کی شخصیت کوبالکل ایک نئ شخصیت بناتا ہے اوراسے کلی طورپر جدید طرح ڈھال دیتا ہے اوراس کی زندگی کوایک دوسرے راستے پرچلاتا ہے جو پہلے راستے سے بالکل مختلف ہوتا ہے جس وہ اسلام سے قبل جاہلیت میں تھا ۔
اوراس بنیادی تبدیلی اورکلی اختلاف سے ایسااخلاق اوراقدار پیداہوں گے جو اس سے قبل موجود نہیں تھے اورقلب کی تطہیر اورنفس کی صفائ پیدا ہوگی تویہ جدید مسلم اپنے ماضی کوایسی آنکھ سے دیکھے گا جواسے سارے کاسارا ماضی گندہ دکھاۓ گی ۔
اورااس کے ارد گردمعاشرے و ماحول میں جوگنداورفحاشی پھیلی ہوئ ہے اور اہل جاہلیت میں جوفحش کام اورخیانت پے پردگی پائ جاتی ہے سے اس کے شعورمیں نفرت پیدا ہوگی ۔
اوروہ فطرت سلیم اوردل کی پاکيزگی جسے ایام کفراورفجور میں اس سے شیطان نے سلب کیا ہوا تھا واپس آ جاۓ گی ، اوریہ توجہ نفس کے اندرسے بخوشی پائ جاۓ گی اورایسااختیار ہوگا جس میں رضامندی شامل ہوگی جواللہ رب العالمین کے احکامات و اوامرکےسامنے کلی طورپر سرتسلیم خم سے صادر ہوگی وہ اللہ جس نےاس شریعت اسلامیہ کومشروع کیا اوراس دین کونازل فرمایا جس کا نام اسلام ہے ۔
ہم نے جوکچھ اوپربیان کیا ہے اس میں دوقسم کی دلیلیں پائ جاتی ہیں :
دلیل شرع اوردلیل تاریخی :
شرعی دلیل :
اللہ تعالی کی کتاب قرآن مجید میں کئ ایک مقامات پران آیا ت کا ذکر ملتا ہے جس میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ ایسا شخص جو پہلے مردہ تھا تو ہم نے اسے زندہ کردیا اورہم نے اس کوایک ایسا نور دیا کہ وہ اس نور کولۓ ہوۓ آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے ، کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جوتارکیوں سے نکل ہی نہیں سکتا ؟ اسی طرح کافروں کو ان کے اعمال خوشنما معلوم ہوتے ہیں } الانعام ( 122 ) ۔
اورایک مقام پراللہ سبحانہ وتعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :
{ اوروہ لوگ اللہ تعالی کے ساتھ کسی دوسرے کومعبود نہیں پکارتے اورکسی ایسے شخص کوجسے اللہ تعالی نے قتل کرنا منع کردیا ہو وہ حق کے سوا اسے قتل بھی نہیں کرتے ،اور نہ وہ زنا کا ارتکاب کرتے ہیں ، اورجوکوئ بھی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لاۓ گا ۔
اسے قیامت کے روز دوگنا عذاب دیا جاۓ گا اور ذلت وخواری کے ساتھ ہمیشہ اسی میں رہے گا ۔
سواۓ ان لوگوں کے جوتوبہ کرلیں ، اورایمان لائيں ، اوراعمال صالحہ کریں ، ایسے لوگوں کے گناہوں کویقنا اللہ تعالی نیکیوں میں بدل دیتا ہے ، اللہ تعالی بخشنے والا بڑا مہربانی کرنے والا ہے } الفرقان ( 68- 70 ) ۔
مفسرین نے اللہ تعالی کے اس { ایسے لوگوں کے گناہوں کویقنا اللہ تعالی نیکیوں میں بدل دیتا ہے } فرمان کے بارہ میں کہا ہے کہ :
کہ انہوں نے اپنے برے اعمال کو اچھے اعمال میں بدل دیا ۔
علی بن ابوطلحہ نے اس آیت کے بارہ میں عبداللہ بن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے بیا ن کیا ہے کہ یہ وہ مومن لوگ ہیں جواپنے ایمان لانے سے قبل معصیت وگناہوں میں گھرے ہوۓ تھے تواللہ تعالی نے انہیں ان برائیوں سے پھیرکر نیکیوں کی طرف لا کران کی برائیوں کونیکیوں میں بدل دیا ۔
اورعطاء بن ابورباح رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :
یہ دنیا میں ہے کہ آدمی کسی قبیح اورگندی صفت پرہوتا ہے پھراللہ تعالی اسے خیروبھلائ سے بدل دیتا ہے ۔
اورسعید بن جبیررحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :
اللہ تعالی نے جوان کی بتوں کی عبادت تھی اسے اللہ و رحمن کی عبادت میں بدل ڈالا ، اوران کے مسلمانوں سے لڑنے کومشرکوں سے قتال میں بدل دیا ، اوران کے مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح کو مسلمان عورتوں کے ساتھ نکاح کو بدل دیا ۔
اورحسن بصری رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے :
اللہ تعالی نے ان کے برے اعمال کواچھے اعمال سے بدل ڈالا ، اورشرک کواخلاص وتوحید اور فسق و فجور کو احسان کے ساتھ تبدیل کردیا ، اورکفرکواسلام میں تبدیل کرکے رکھ دیا ۔
ابوعالیہ ، قتادہ ، اورایک جماعت رحمہ اللہ اجمعین کا بھی یہی قول ہے ۔دیکھیں تفسیر ابن کثیر ۔
تاریخی دلیل :
اس میں بہت سے لوگوں کے قصے ہیں جوکافرتھے اورجب مسلمان ہوۓ تو ان میں کس طرح تبدیلی واقع ہوئ اوران کے معاملات کس طرح سیدھے ہوۓ ، ان واقعات وقصوں میں سے ایک ذیل میں دیا جاتا ہے :
ایک شخص جسے مرثد بن ابومرثدرضی اللہ تعلی عنہ کہا جاتا تھا جو ایک مسلمان تھے اورمشرکوں کے علاقے مکہ سے مسلمان قیدیوں کواٹھا کرمسلمانوں کے علاقہ مدینہ نبویہ میں لاتے تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ :
مکہ میں ایک فاحشہ عورت جس کانام عناق تھا یہ عورت ایام جاہلیت میں ان کی گرل فرینڈ تھی اورانہوں نے خود مکہ میں ایک قیدی سے وعدہ کیا ہوا تھا کہ وہ اسے مکہ سے اٹھا لائيں گے ۔
مرثدبن ابومرثد رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک چاندنی رات میں مکہ آیااورایک دیوار کے ساۓ میں پہنچا وہ بیان کرتے ہیں کہ عناق آئ اور اس نے دیوار کے قریب میرا سایہ دیکھا اورجب وہ قریب آئ تومجھے پہچان کر کہنے لگی مرثد ہو ؟ میں نے جواب دیا ہاں مرثدہوں ۔
وہ کہنے لگی خوش آمدید آؤ ہمارے پاس رات بسر کرو ، مرثدرضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اسے کہا اے عناق اللہ تعالی نے زنا کاری حرام قرار دی ہے ۔
تواس نے زنا نہ کرنے کا انتقام لیتے ہوۓ چيخ کرکفار کوکہا اے خیموں والو یہ آدمی تمہارے قیدی اٹھا کرلےجاتا ہے تا کہ وہ اسے پکڑ لیں ۔
مرثدرضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے پیچھے آٹھ آدمی بھاگے اورانہوں نے ان سے نجات کس طر ح حاصل کرنے کا طریقہ بھی ذکر کیا ۔
تویہ قصہ اللہ تعالی کے اس فرمان کا سبب نزول بن گيا :
{ زانی مرد زانیہ یا مشرکہ عورت کے علاوہ کسی اورسے نکاح نہیں کرتا اورزنا کار عورت بھی زانی یا مشرک مرد کے علاوہ کسی اور سے نکاح نہیں کرتی اورایمان والوں یہ حرام کر دیاگیا ہے } النور ( 3 ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 3101 ) ۔امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوحسن کہا ہے ۔
تواس قصہ سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد اس آدمی کی حالت کس طرح بدل چکي تھی کہ وہ اس حرام فعل سے رک گيا جواس کے سامنے پیش کیا گیا ، اور اسی طرح اسلام لانے کے بعد عورت کی بھی یہی حالت ہوتی ہے جس کے بارہ میں ہم مندرجہ ذيل قصہ پیش کرتے ہيں :
عبداللہ بن مغفل بیان کرتے ہیں کہ جاہلیت میں ایک فاحشہ عورت تھی جس کے پاس سے ایک مرد گزرا یا وہ کسی مرد کے پاس سے گزری تواس مرد نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تووہ عورت کہنے لگی رک جا ۔ یقینا اللہ تعالی شرک کوختم کردیا اوراسلام لے آیا ہے تووہ مرد اسے چھوڑ کرچلتا بنا ۔۔
اسے امام حاکم رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا اوراسے صحیح قرار دیتے ہوۓ کہا ہے کہ یہ مسلم کی شرط پر ہے لیکن انہوں نے روایت نہیں کیا ۔
اگرآپ اسلام قبول کريں اورآپ اس میں سچے ہوں شریعت اسلامیہ پراستقامت اختیارکریں اورجس طرح اللہ تعالی نے واجب قرار دیا ہے اس کی عبادت کریں اوراس کے احکامات کی پاپندی کرتے ہوۓ جس سے روکا گیا ہے اس سے رکے اورجس کے کرنے کاحکم دیا گيا ہے اس سے رک جائيں توان شاء اللہ تعالی آپ ان مشاکل سے نجات حاصل کرلیں گے جوسوال میں آپ نے ذکر کی ہيں ، یہ آپ کے پیش ہی نہیں آئيں گی ۔
پھرآّپ کے پاس ایسے وسائل بھی ہیں جن کی بنا پرآپ عفت وعصمت حاصل کرسکتے ہيں اوراپنے آپ کوارتکاب حرام سے بچا سکتے ہيں ۔
ان وسائل میں سے شادی بھی ایک وسیلہ ہے جوکہ شریعت اسلامیہ کا حکم بھی جوبھی صاف شفاف راستے پرچلتا ہے اسے کس حل اورتالاب کی ضرررت نہیں رہتی جس میں غوطے لگاۓ جائيں ۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گوہيں کہ وہ آپ کوجتنی جلدی ہوسکے ھدایت نصیب فرماۓ ، اورآپ کے سب معاملات میں آسانی پیدا فرماۓ اورآپ سے شروبرائ دورکردے ۔
اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پررحمتیں نازل فرماۓ ۔آمین یا رب العالمین ۔
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ