معاصى عام ہونے كے ايام ميں زيادہ عبادت كرنا

لوگ معصيت ميں مشغول ہوں تو عبادت كرنے كا حكم كيا ہے ( مثلا سال نو كے جشن كے موقع پر ) تا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان " لوگوں كے ہرج يعنى فتنہ كے وقت عبادت ميرى طرف ہجرت كى طرح ہے " پر عمل كيا جا سكے ؟

الحمد للہ:

اپنے دين پر ثابت قدم اور تمسك كرنے والا وہ مسلمان شخص ہے جو ہر وقت پوشيدہ اور اعلانيہ تنگى اور آسانى ہر حالت ميں اللہ كا ذكر كرتا ہو، وہ اپنے پروردگار كا ذكر كبھى نہ چھوڑے اور اپنے دل كو اس سے غافل نہ كرتا ہو، اور كوئى بھى شغل اسے عبادت سے نہ روك سكے، اور نہ ہى اللہ كى محبت سے اسے كوئى چيز پھير كر دور كر سكے.

آپ اسے ديكھيں گے كہ وہ اپنى سارى حالتوں ميں اللہ كى عبادت پر حريص ہو گا، وہ اپنى عمر كو اپنے مولا و آقا و پروردگار كى اطاعت ميں بسر كرنے پر حريص ہو گا، اور جب عبادت گزاروں كے ساتھ ہو گا تو عبادت ميں ان سے آگے نكلنے كى كوشش كريگا، اور سبقت لے جانے كى كوشش كريگا، اور جب لوگوں كو عبادت سے غافل ديكھےگا تو اپنے اوپر اللہ كى نعمت محسوس كريگا، تو يہى وہ شھداء اور غرباء ہيں جو انگاروں پر جى رہے ہيں، جن كى فضيلت ميں احاديث وارد ہيں اور وہ فتنہ و فساد اور غربت و اجنبيت كے وقت دين پر عمل پيرا ہونگے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اسلام ابتداء ميں اجنبى تھا اور پھر وہ اسى اجنبيت ميں واپس پلٹ جائيگا، تو غرباء كے ليے خوشخبرى ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 145 ).

لہذا جو بھى فتنہ و فساد اور غفلت كے دور ميں سنت پر عمل پيرا ہو اور اطاعت و فرمانبردارى كرے جس طرح وہ اصلاح و تقوى كے وقت كرتا تھا اور وہ ہر حالت ميں عامل اور عابد ہو تو اسے فضيلت ضرور حاصل ہو گى، اسى شخص كى مدح ثنائى كے متعلق احاديث وارد ہيں.

ليكن بعض لوگ جو يہ سمجھتے ہيں كہ وہ معاصى و گناہ اور برائياں عام ہونے كا انتظار كرے تا كہ اس دن كو روزے اور عبادت كے ليے مخصوص كرے، حالانكہ غالب ايام و حال ميں اس كى يہ عادت نہ ہو تو اس كى يہ سمجھ اور فہم صحيح نہيں، اور نہ ہى شارع حكيم كا يہ مقصد ہے، بلكہ شارع كا مقصود يہ ہے كہ ہميشہ سنت پر عمل پيرا ہوا جائے، اور مكمل طور پر اللہ كے احكام پر عمل كيا جائے، تا كہ مسلمان زمين ميں اندھيروں كے وقت بھى روشنى كا منارہ بن كر رہے، اور اللہ تعالى سے ملے جس پر اس نے اللہ كے سامنےمطيع ہونے كا وعدہ كيا تھا اس ميں كوئى كمى نہ كى ہو.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حالت يہى تھى آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے ايام و اوقات خالصتا اللہ كى رضا كے ليے بسر ہوتے تھے، آپ كوئى عبادت كا كوئى موقع اور فرصت ہاتھ سے نہيں جانے ديتے تھے، حتى كہ اسامہ بن زيد رضى اللہ تعالى عنہما نے دريافت فرمايا:

" اے اللہ تعالى كے رسول ميں ديكھتا ہوں كہ جتنے آپ ماہ شعبان ميں روزے ركھتے ہيں كسى اور مہينہ ميں نہيں ركھتے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يہ وہ مہينہ ہے جس ميں لوگ غفلت كا شكار ہوتے ہيں يہ مہينہ رجب اور رمضان كے درميان ہے، اور يہ وہ مہينہ ہے جس ميں اعمال اللہ رب العالمين كى طرف اٹھائے جاتے ہيں، اس ليے ميں پسند كرتا ہوں كہ ميرے عمل اٹھائينگے جائين تو ميں روزہ كى حالت ميں ہوں "

سنن نسائى حديث نمبر ( 2357 )  علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 1898 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور اس حديث كا معنى بھى يہى ہے جو معقل بن يسار رضى اللہ عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" لوگوں كے فتنہ كے وقت عبادت كرنا ميرى طرف ہجرت كى طرح ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2948 ).

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہاں ہرج سے مراد فتنہ اور لوگوں كے امور كا اختلاط ہے، اور اس وقت عبادت كى كثرت فضيلت كا سبب يہ ہے كہ لوگ اس وقت عبادت سے غافل ہوتے ہيں، اور كسى اور كام ميں مشغول رہتے ہيں، صرف چند ايك افراد ہى عبادت كرتے ہيں " انتہى

ديكھيں: شرح مسلم ( 18 / 88 ).

اس ليے ہم سوال كرنے والى بہن كے ليے اور نہ ہى كسى اور مسلمان كے ليے جائز نہيں سمجھتے كہ وہ كفار كا مقابلہ كرتے ہوئے سال نو كے جشن والى راتوں كو عبادت كے ليے مخصوص كريں جب وہ لوگ ان راتوں كو اللہ كى معصيت سے بھر ديتے ہيں، ليكن اگر مسلمان شخص كى عادت ہو كہ وہ باقى ايام اور راتوں ميں بھى عبادت و قيام كرتا ہے تو پھر ان راتوں ميں بھى عبادت كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اللہ سبحانہ و تعالى اس كى نيت اور عمل پر اجر عظيم عطا فرمائيگا.

سوال نمبر (113064 ) كے جواب ميں كفار كے تہواروں كے موقع پر رات اور دين كو عبادت كے ليے مخصوص كرنے سے اجتناب كرنے كے متعلق تفصيل بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم.

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ