مجلس كا كوئى منبر آئے تو سبحان اللہ كہتا اور باقى منبر بھى تكبير كہتے اور لا الہ الا اللہ پڑھتے ہيں
ہم ديكھتے ہيں كہ بہت سارى مجالس ميں جب بھى كوئى منبر داخل ہوتا ہے تو پہلا منبر سبحان اللہ كہتا ہے، اور دوسرا اللہ اكبر، اسى طرح وہ سب سبحان اللہ اور لا الہ الا اللہ كہنا شروع كر ديتے ہيں، جب بھى مجلس ميں داخل ہوں ايسا ہى كرتے ہيں، اللہ آپ كو بركت عطا فرمائے ايسا كرنے كا حكم كيا ہے ؟
الحمد للہ:
جب مجلس ميں داخل ہونے والا اپنے بھائيوں كو سبحان اللہ، لا الہ الا اللہ، اور اللہ اكبر كى ياد دہانى كروانا چاہتا ہو تو تكبير كہے اور سبحان اللہ كہے اور باقى اعضاء بھى اس كے ساتھ اللہ كا ذكر كريں تو اس ميں كوئى حرج نہيں، يہ مجلس ميں ذكر شمار ہوتا ہے، اور اس سلسلہ ميں ايك مشہور حديث وارد ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى فرماتا ہے: ميں اپنے بندے كے گمان كے مطابق ہوں ميرے بارہ ميں جو وہ گمان كرتا ہے، جب وہ ميرا ذكر كرتا ہے تو ميں اس كے ساتھ ہوں، اگر وہ مجھے اپنے نفس ميں ياد كرتا ہے تو ميں اسے اپنے نفس ميں ياد كرتا ہوں، اور اگر وہ مجھے جماعت اور مجلس ميں ياد كرتا ہے تو ميں اسے اس سے بہتر جماعت ميں ياد كرتا ہوں، اور اگر وہ ميرى جانب ايك بالشت آگے آتا ہے تو ميں اس كى جانب ايك ہاتھ جاتا ہوں، اور اگر وہ ايك ہاتھ ميرے قريب آتا ہے تو ميں دو ہاتھ قريب آتا ہوں، اور اگر وہ ميرى جانب چل كر آتا ہے تو ميں اس كى جانب دوڑ كر جاتا ہوں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 7405 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2675 ).
اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس مجلس ميں اللہ كا ذكر نہ كيا جائے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود نہ پڑھا جائے وہ مجلس ان پر حسرت و ياس ہو گى، اگر اللہ چاہے تو انہيں عذاب دے اور چاہے تو انہيں بخش دے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 3380 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 5059 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ترۃ كا معنى حسرت و ندامت ہے.
ليكن يہاں ممنوع يہ ہے كہ اس كى تعداد متعين كر لى جائے يا پھر ترتيب مقصود ہو مثلا سبحان اللہ سے شروع كى جائے اور دوسرے پر لازم ہو كہ وہ اللہ اكبر يا الحمد للہ كہے، لازم كا اعتقاد ركھنا يا معين عدد كے ساتھ ذكر كو مخصوص كرنا جس كا شريعت ميں وجود نہ ہو، يا اس طرح ايك دوسرے كے بعد ذكر كرنے كو سنت كا اعتقاد ركھنا يہ سب بدعات ميں شامل ہوتا ہے.
اہل علم نے متنبہ كيا ہے كہ عبادت كو وقت يا جگہ كے ساتھ مخصوص كرنا، يا اسے كسى معين كفيت كے ساتھ خاص كرنا جو حديث ميں وارد نہ ہو اسے بدعات اور دين ميں نيا كام ايجاد كرنے ميں شامل ہوتا ہے، اور اسے اضافى بدعت كا نام ديا جائيگا، كيونكہ اصل ميں تو مشروع تھى ليكن وصف كے اعتبار سے مردود ہے.
شاطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بدعت كى تعريف اس طرح ہو گى: دين ميں نيا ايجاد كردہ طريقہ، جو شريعت كا مقابلہ كرتا ہو، اور اس پر چل كر اللہ سبحانہ و تعالى كى عبادت ميں مبالغہ كا قصد كيا جائے...
اس ميں كسى معين كيفيت اور معين ہيئت اور شكل كا التزام كيا جائے مثلا اجتماعى صورت ميں ايك ہى آواز پر ذكر كرنا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے يوم ولادت كو عيد بنانا وغيرہ.
اس ميں يہ بھى شامل ہے كہ: معين عبادات كا معين اوقات ميں التزام كرنا جن كى تعيين شريعت ميں نہيں ہے، مثلا پندرہ شعبان كا روزہ ركھنا اور نصف شعبان كى رات كا قيام كرنا " انتہى
ديكھيں: الاعتصام ( 1 / 37 - 39 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 11938 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ