کیا قرض کی ادائيگی پرشادی مقدم کرے

 

 

 

اگرکسی شخص پرقرض کی شکل میں دوسرے لوگوں کے حقوق ہوں ، وقت حاضر میں وہ ان حقوق کوادا نہ کرسکتا ہولیکن اس کی نیت ہے کہ جب بھی اسے میں استطاعت ہوئي وہ لوگوں کے حقوق کی ادائيگي کرے گا ، یہ علم میں رکھیں کہ قرض خواہ اس کے ساتھ اسی ملک میں نہیں رہائش پذیرنہیں ۔
سوال یہ ہے کہ : مثلا اگر اس شخص کے پاس کچھ مال آئے اوراسے یہ خدشہ ہوکہ وہ فتنہ میں پڑ جائے گا ، اسے شادی کی رغبت ہوتوکیا وہ پہلے شادی کرے یا اسے پہلے لوگوں کے حقوق ادا کرنے چاہییں ؟

الحمدللہ

قرض وغیرہ کی شکل میں لوگوں کے حقوق کی ادائيگي شادی پرمقدم کرنا واجب ہے ، لیکن جب قرض واپس لینے والے اسے قرض کی ادائيگي پرشادی کومقدم کرنے کی اجازت دے دیں تواس حالت میں شادی مقدم کرنا جائز ہوگي۔

اوررہا مسئلہ یہ کہ اسے اپنے آپ پر فتنہ میں مبتلاء ہونے کا خطرہ ہو تواس کا علاج یہ ہے کہ اپنے نفس کی حفاظت کرنے کے لیے روزے رکھے جائيں ، کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( اے نوجوانوں کی جماعت ! تم میں سے جوبھی شادی کی طاقت رکھتا ہےوہ شادی کرے ، کیونکہ ایسا کرنا شرمگاہ کی حفاظت اورآنکھوں کونیچا کردیتاہے ، اورجوکوئي طاقت نہیں رکھتا اسے روزے رکھنے چاہيیں کیونکہ یہ اس کے لیے بچاؤ اورڈھال ہیں ) متفق علیہ ۔

اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔ .

دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 14 / 39 ) ۔

 

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ