کیا بیٹی والد کا فطرانہ ادا کرسکتی ہے

 

 

 

کیا مسلمان عورت اپنے والد کا فطرانہ ادا کرسکتی ہے ؟

الحمد للہ
شیخ محمد عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

جس پر کسی دوسرے کا فطرانہ ادا کرنا واجب نہیں اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسرے کی جانب سے فطرانہ ادا کرنے کی اجازت حاصل کرے ۔

اگرلوگوں میں سے زید نے عمرو کی جانب سے اس کی اجازت کے بغیر فطرانہ ادا کردیا تویہ فطرانہ عمرو کی ادائيگی میں کفائت نہیں کرے گا ، اس لیے کہ عمرو کا فطرانہ زيد کے ذمہ نہیں تھا ، اورفطرانہ کی ادائیگی میں جس پر فطرانہ واجب ہے اس کی نیت ضروری ہے یا پھر اس کے وکیل کی نیت ہونی چاہیۓ ۔

یہ مسئلہ ایک فقھی قاعدے اوراصول پر مبنی ہے جسے فقھاء " تصرف فضولی " کا نام دیتے ہیں ۔ جس کا معنی ہے کہ کوئی انسان کسی دوسرے کی جانب سے اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرے ۔

سوال ؟

کیا یہ تصرف مطلقا باطل ہے یا پھر دوسرے کی اجازت و رضامندی پر موقوف ہے ؟

جواب :

اہل علم کے ہاں اس مسئلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے ، اورراجح یہ ہے کہ : جب دوسرا شخص راضي ہو تو یہ تصرف کفائت کرے گا ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی نے اس میں زکاۃ کے غلہ کی حفاظت کے بارہ میں ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ اورشیطان کے واقع والی معرو ف حدیث بھی پیش کی ہے جس کی مکمل نص آپ سوال نمبر ( 6092 ) کے جواب میں دیکھ سکتے ہيں ۔

اس حدیث میں شاھد یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کوتصرف کی اجازت دی تھی اوراسے کافی قرار دیا تھا باوجود اس کے جولیاگیا تھا وہ زکاۃ کا مال اور ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ حفاظت کے وکیل تھے نہ کہ کسی اورچيز کے وکیل ۔

دیکھیں الشرح الممتع لابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی ( 6 / 165 ) ۔

واللہ اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد

 

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ