عيد الفطر اور عيد الاضحى كى تحديد رؤيت ہلال پر مبنى ہے
عيدوں كے متعلق ميرا ايك سوال ہے كہ:
مجھے علم ہے كہ عيد الفطر رمضان المارك كے بعد ہوتى ہے، اور اس دن كے متعلق مسلمانوں كے مابين ہميشہ اختلاف رہتا ہے ( بعض لوگ انتيس روزوں كے بعد عيد الفطر مناتے ہيں، اور بعض لوگ تيس كے بعد "
ليكن عيد الاضحى كے متعلق گزارش يہ ہے كہ آيا يہ اس دن منائى جائيگى جب مكہ ميں حجاج كرام منائيں، يا كہ اس ميں بھى علاقوں كے اعتبار سے اختلاف ممكن ہے ؟
الحمد للہ:
اول:
يكم رمضان اور عيد الفطر كے دن كى تحديد ميں مسلمانوں كا اختلاف فقھاء كرام كے اس مشہور مسئلہ ميں اختلاف پر مبنى ہے جس ميں فقھاء كا كہنا ہے كہ:
آيا كسى ايك ملك اور علاقے ميں رؤيت ہلال كى بنا پر باقى سب پر بھى يہ رؤيت لازم آتى ہے، يا كہ ہر علاقے اور ملك كى رؤيت عليحدہ ہے ؟
اور عيد الاضحى كى تحديد پر بھى يہى منطبق ہوتا ہے.
اور يہ اجتھادى مسائل ميں شامل ہوتا ہے، ہر گروہ كے علماء نے دلائل سے استدلال كيا ہے، اور بعض اوقات تو دونوں فريق ايك ہى نص سے استدلال كرتے ہيں.
اس كى تفصيل سوال نمبر ( 1248 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.
اور يہ قول: كہ اگر ايك علاقے ميں چاند نظر آ گيا تو باقى سب علاقوں پر بھى يہ لازم ہوگا، جمہور علماء كرام كا مسلك يہى ہے، اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ نے يہى قول اختيار كيا ہے.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن باز ( 15 / 77 ).
اور مطلع كے مختلف ہونے كا قول شافعيہ كے ہاں اصح ترين ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ اور معاصر علماء ميں سے شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى اسے اختيار كيا ہے، اور ان كا فتوى سوال نمبر ( 40720 ) كے جواب ميں نقل كيا جا چكا ہے.
دوم:
اس اختلاف كى بنا پر ہى بغير كسى فرق كے عيد الفطر اور عيد الاضحى ميں مسلمانوں كا اختلاف رہتا ہے، چاند كا مطلع مختلف ہونے كى بنا پر اسلامى ماہ شروع اور ختم ہونے پر عمل كرنے ميں علماء كرام كا اختلاف ذكر كرنے كے بعد شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
مجھے تو يہى لگتا ہے كہ مطلع كا مختلف ہونا كوئى اثر نہيں ركھتا، روزہ ركھنے اور عيد منانے كے متعلق تو رؤيت ہلال پر عمل كرنا ضرورى ہے، اس ليے جب شرعى طريقہ پر كسى بھى علاقے ميں رؤيت ہلال ثابت ہو جائے تو اس پرعمل كرنا چاہيے .....
پھر شيخ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اور جب ہم يہ كہيں كہ: حكم ميں مطلع كا اختلاف معتبر ہے، يا اس كے اختلاف كو معتبر نہ كہيں، تو ظاہر يہى ہے كہ رمضان اور عيد الاضحى ميں حكم ايك ہى ہے، اور جتنا مجھے شرعى علم ہے اسكے مطابق تو اس ميں كوئى فرق نہيں " انتہى.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن باز ( 15 / 79 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كے جس فتوى كا ابھى اوپر ذكر كيا گيا ہے كہ اس ميں وہ كہتے ہيں: مطلع جات كے اختلاف پر عيد الاضحى ميں بھى اسى طرح عمل كيا جائيگا جس طرح رمضان كے شروع اور ختم ہونے كے متعلق عمل كيا جاتا ہے.
تو اس بنا پر اس ميں كوئى اشكال نہيں رہتا كہ ايك ملك ميں عيد الاضحى جمعہ كے روز ہو، اور دوسرے ملك ميں ہفتہ كے روز، اسى طرح رؤيت كے اختلاف اور متعدد ہونے كى بنا پر.
اور رمضان، اور يوم عرفہ، اور عاشوراء كے روزے كے متعلق بھى اسى طرح ہے، اس ليے كہ يہ مسائل رؤيت ہلال، اور ماہ شروع ہونے يا نہ شروع ہونے پر مشتمل ہے.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ