نماز استخارہ

ميں نماز استخارہ كے متعلق مزيد معلومات حاصل كرنا چاہتا ہوں، مثلا اس ميں تلاوت كيا كروں، اور كونسى دعاء كروں، ركعات كى تعداد كتنى ہے اور اس كا اجروثواب كيا ہے؟
اور كيا حنبلى، اور شافعى اور حنفى مسلك ميں نماز كا يہى طريقہ ہے ؟
الحمد للہ :
اگر كوئى شخص كوئى كام كرنا چاہے اور وہ اس ميں متردد ہو تو اس كے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز استخارہ مشروع كى ہے اور يہ سنت ہے، نماز استخارہ كے متعلق ان سطور ميں درج ذيل آٹھ نقاط ميں بحث كى جائے گى:
1 - نماز استخارہ كى تعريف.
2 - نماز استخارہ كا حكم
3 - اس كى مشروعيت كى حكمت كيا ہے.
4 - نماز استخارہ كا سبب كيا ہے.
5 - استخارہ كب كيا جائے گا.
6 - استخارہ كرنے سے قبل مشورہ كرنا.
7 - نماز استخارہ ميں كيا پڑھا جائے گا.
8 - استخارہ كى دعاء كب كى جائے گى.
نماز استخارہ كى تعريف:
استخارہ كى لغوى تعريف: كسى چيز ميں سے بہتر كو طلب كرنا، كہا جاتا ہے: استخر اللہ يخر لك، اللہ تعالى سے استخارہ كرو وہ تمہارے ليے بہتر اختيار كر دے گا.
استخارہ كى اصطلاحى تعريف:
اختيار طلب كرنا. يعنى نماز يا نماز استخارہ ميں وارد شدہ دعاء كے ساتھ اللہ تعالى كے ہاں جو بہتر اور اولى و افضل ہے اس كى طرف پھرنے اور وہ كام كرنا طلب كرنا.
نماز استخارہ كا حكم:
نماز استخارہ كے سنت ہونے ميں علماء كرام كا اجماع ہے، اور اس كى مشروعيت كى دليل بخارى شريف كى مندرجہ ذيل حديث ہے:
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے ہميں سارے معاملات ميں استخارہ كرنے كى تعليم اس طرح ديا كرتے تھے جس طرح ہميں قرآن مجيد كى سورۃ كى تعليم ديتے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرماتے:
" جب تم ميں سے كوئى ايك شخص كام كرنا چاہے تو وہ فرض كے علاوہ دو ركعت ادا كر كے يہ دعاء پڑھے:
" اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلامُ الْغُيُوبِ اللَّهُمَّ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ هَذَا الأَمْرَ ثُمَّ تُسَمِّيهِ بِعَيْنِهِ خَيْرًا لِي فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ قَالَ أَوْ فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ اللَّهُمَّ وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْنِي عَنْهُ [ واصرفه عني ] وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ رَضِّنِي بِهِ "
اے اللہ ميں ميں تيرے علم كى مدد سے خير مانگتا ہوں اور تجھ سے ہى تيرى قدرت كے ذريعہ قدرت طلب كرتا ہوں، اور ميں تجھ سے تيرا فضل عظيم مانگتا ہوں، يقينا تو ہر چيز پر قادر ہے، اور ميں ( كسى چيز پر ) قادر نہيں، تو جانتا ہے، اور ميں نہيں جانتا، اور تو تمام غيبوں كا علم ركھنے والا ہے، الہى اگر تو جانتا ہے كہ يہ كام ( جس كا ميں ارادہ ركھتا ہوں ) ميرے ليے ميرے دين اور ميرى زندگى اور ميرے انجام كار كے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے ميرے مقدر ميں كر اور آسان كر دے، پھر اس ميں ميرے ليے بركت عطا فرما، اور اگر تيرے علم ميں يہ كام ميرے ليے اور ميرے دين اور ميرى زندگى اور ميرے انجام كار كے لحاظ سے برا ہے تو اس كام كو مجھ سے اور مجھے اس سے پھير دے اور ميرے ليے بھلائى مہيا كر جہاں بھى ہو، پھر مجھے اس كے ساتھ راضى كردے.
اور وہ اپنى ضرورت اور حاجت يعنى كام كا نام لے.
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1166 ) يہ حديث كئى ايك جگہ ميں امام بخارى رحمہ اللہ نے ذكر كي ہے.
نماز استخارہ كى مشروعيت كى حكمت:
استخارہ كى مشروعيت ميں حكمت يہ ہے كہ اللہ تعالى كے حكم كے سامنے سر خم تسليم كيا جائے، اور طاقت و قدرت سے نكل كر اللہ تعالى كى طرف التجاء كى جائے، تا كہ وہ دنيا و آخرت كى خير و بھلائى جمع كر دے، اور اس كے ليے اس مالك الملك سبحانہ وتعالى كا دروازہ كھٹكھٹانے كى ضرورت ہے، اور اس كے ليے نماز اور دعاء سے بڑھ كر كوئى چيز بہتر اور كامياب نہيں كيونكہ اس ميں اللہ تعالى كى تعظيم اور اس كى ثناء اور اس كى طرف قولى اور حالى طور پر محتاجگى ہے، اور پھر استخارہ كرنے كے بعد اس كے ذہن ميں جو آئے وہ اس كام كو سرانجام دے.
استخارہ كا سبب:
( جن ميں استخارہ كيا جاتا ہے ) اس كا سبب يہ ہے كہ: مذاہب اربعہ اس پر متفق ہيں كہ استخارہ ان امور ميں ہوگا جن ميں بندے كو درست چيز كا علم نہ ہو، ليكن جو چيزيں خير اور شر ميں معروف ہيں اور ان كے اچھے اور برے ہونے كا علم ہے مثلا عبادات، اور نيكى كے كام اور برائى اور منكرات والے كام تو ان كاموں كے ليے استخارہ كرنے كى كوئى ضرورت نہيں.
ليكن اگر وہ خصوصا وقت كے متعلق مثلا دشمن يا فتنہ كے احتمال كى صورت ميں اس سال حج پر جائے يا نہ اور حج ميں كس كى رفاقت اختيار كرے تو اس كے ليے استخارہ ہو سكتا ہے.
تو اس بنا پر كسى واجب، يا حرام يا مكروہ كام ميں استخارہ نہيں كيا جائے گا، بلكہ استخارہ تو مندوب اور جائز اور مباح كاموں ميں كيا جائے گا اور پھر مندوب كام كے اصل كے ليے استخارہ نہيں كيونكہ وہ كام تو اصل ميں مندوب ہے بلكہ استخارہ اس وقت ہو گا جب تعارض ہو، يعنى جب اس كے پاس دو كاموں ميں تعارض پيدا ہو جائے كہ وہ كونسے كام سے ابتداء كرے يا دونوں ميں سے پہلے كام كونسا كرے؟ ليكن مباح كام كے اصل ميں بھى استخارہ كيا جاسكتا ہے.
استخارہ كب كيا جائے؟
استخارہ اس وقت كيا جائے جب استخارہ كرنےوالا شخص خالى الذہن ہو اور كسى معين كام كو سرانجام دينے كا عزم نہ ركھے، كيونكہ حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:
" جب اسے كوئى كام درپيش ہو " اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ استخارہ اس وقت ہو گا جب ابھى اس كے دل ميں كوئى كام آيا ہو، تو پھر نماز اور دعاء استخارہ كى بركت سے اس كے ليے اس كام كى بہترى ظاہر ہو گى.
بخلاف اس كے كہ جب اس كے نزديك كوئى كام كرنا ممكن ہو اور وہ اسے سرانجام دينے پر پختہ عزم اور ارادہ كر چكا ہو، تو پھر وہ اپنے ميلان اور محبت كى طرف ہى جائے گا، تو اس سے خدشہ ہے كہ اس كے ميلان اور پرعزم كے غلبہ كى بنا پر اس سے بہترى كى راہنمائى مخفى رہے.
اور يہ بھى احتمال ہے كہ حديث ميں ھم يعنى درپيش سے مراد عزم ہو كيونكہ ذہن ثابت اور ايك پر نہيں ٹھرتا، تو وہ ايسا ہى نہيں رہے گا الا يہ كہ جب اسے سرانجام دينے كا عزم ركھنے والا شخص بغير كسى ميلان كے سرانجام دے، وگرنہ اگر وہ ہر حالت اور ذہن ميں استخارہ كرے گا تو پھر وہ ايسے كاموں ميں بھى استخارہ كرتا پھرے گا جس كا كوئى فائدہ نہيں تو اس طرح وہ وقت كے ضياع كا باعث ہو گا.
استخارہ كرنے سے قبل مشورہ كرنا:
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
استخارہ كرنے سے قبل كسى ناصح اور شقفت اور تجربہ كار اور دينى اور معلوماتى طور پر بااعتماد شخص سے اس كام ميں مشورہ كرنا مستحب ہے.
فرمان بارى تعالى ہے:
﴿اور معاملے ميں ان سے مشورہ كرو﴾.
اور مشورہ كرنے كے بعد جب اسے يہ ظاہر ہو كہ اس كام ميں مصلحت ہے تو پھر وہ اس كام ميں اللہ تعالى سے استخارہ كرے.
ابن حجر الھيتمى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
حتى كہ تعارض كے وقت بھى ( يعنى پہلے مشورہ كرے ) كيونكہ مشورہ دينے والے كے قول پر اطمنان نفس سے زيادہ قوى ہے، كيونكہ نفس پر نصيب غالب ہوتے اور ذہن بكھرا ہوتا ہے، ليكن اگر اس كا نفس مطمئن اور سچا ارادہ ركھتا ہو اور خالى الذہن ہو تو پھر استخارہ كو مقدم كرے.
نماز استخارہ ميں كيا پڑھا جائے گا:
- نماز استخارہ ميں قرآت كے متعلق تين قسم كى آراء ہيں:
ا ـ احناف، مالكى اور شافعى حضرات كہتے ہيں كہ سورۃ فاتحہ كے بعد پہلى ركعت ميں " قل يا ايہا الكافرون" اور دوسرى ركعت ميں " قل ھو اللہ احد " پڑھى جائے.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے اس پر تعليق ذكر كرتے ہوئے كہا ہے:
ان دونوں سورتوں كو پڑھنا اس ليے مناسب ہے كہ يہ نماز ايسى ہے جس سے رغبت ميں اخلاص اور صدق اور اللہ تعالى كے سپرد اور اپنى عاجزى كا اظہار ہے، اور انہوں اس كى بھى اجازت دى ہے كہ: ان سورتوں كے بعد قرآن مجيد كى وہ آيات بھى پڑھ لى جائيں جن ميں خيرو بھلائى اور بہترى كا ذكر ہے.
ب ـ بعض سلف حضرات نے مستحسن قرار ديتے ہوئے كہا ہے كہ نماز استخارہ كى پہلى ركعت ميں سورۃ الفاتحہ كے بعد مندرجہ ذيل آيات تلاوت كى جائيں:
﴿ وَرَبُّك يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ﴾ .
اور تيرا رب جو چاہتا ہے پيدا كرتا اور اختيار كرتا ہے.
﴿ مَا كَانَ لَهُمْ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ .
ان كے ليے كوئى اختار نہيں اللہ تعالى پاك اور بلند و بالا ہے اس چيز سے جو وہ شرك كرتے ہيں.
﴿وَرَبُّك يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ﴾ .
اور تيرا رب جانتا ہے جسے ان كے سينے چھپاتے ہيں اور جو ظاہر كرتے ہيں.
﴿ وَهُوَ اللَّهُ لا إلَهَ إلا هُوَ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولَى وَالْآخِرَةِ وَلَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ﴾ "
اور وہ ہى اللہ ہے، اس كے علاوہ كوئى اور معبود برحق نہيں، پہلے اور آخر ميں اسى كى تعريفات ہيں، اور اسى كے ليے حكم ہے اور اسى كى طرف لوٹائے جائيں گے.
اور دوسرى ركعت ميں يہ آيات پڑھے:
﴿ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمْ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالا مُبِينًا﴾
جب اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كسى امر ميں فيصلہ كر ديں كو كسى مومن مرد اور مومن عورت كو اپنے معاملہ ميں كوئى اختيار باقى نہيں رہتا، اور جو كوئى اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى نافرمان كرے گا وہ واضح گمراہى ميں جا پڑا.
ج ـ ليكن حنابلہ اور بعض دوسرے فقھاء نے نماز استخارہ ميں معين قرآت كرنے كا نہيں كہا.
دعاء استخارہ پڑھنے كى جگہ:
احناف، مالكى ، شافعى اور حنابلہ حضرات كا كہنا ہے كہ:
استخارہ كى دعاء دو ركعت كے بعد پڑھى جائيگى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ حديث كى نص كے موافق بھى يہى ہے.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 3 / 241 ).
شيخ الاسلام ابن تيميہ كا كہنا ہے:
دعائے استخارہ كے متعلق مسئلہ:
كيا دعاء نماز ميں مانگى جائيگى يا كہ نماز سے سلام پھيرنے كے بعد؟
جواب:
نماز استخارہ اور دوسرى نماز ميں سلام سے قبل دعاء كرنى جائز ہے، اور سلام كے بعد بھى، اور سلام پھيرنے سے قبل دعاء كرنى افضل ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ كى اكثر دعائيں سلام پھيرنے سے قبل ہوا كرتى تھيں اور سلام سے قبل نمازى نماز سے فارغ نہيں ہوتا تو يہ بہتر ہے.
ديكھيں: فتاوى الكبرى ( 2 / 265 ).
واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ