ایوب علیہ السلام کی زوجہ کا نام
ایوب علیہ السلا کی زوجہ کا نام کیا تھا ؟
مورخین اوربعض مفسریں نے اس کا نام رحمۃ بنت میشان بن یوسف بن یعقوب ذکرکیا ہے ۔
لیکن یہ نام کسی صریح اورصحیح نص سے ثابت نہیں بلکہ اھل کتاب کی کتب سے منقول ہے ، یاپھر مسلمان ان سے نقل کرتے ہیں ، ذیل میں ہم ان علماء کا ذکرکرتے ہيں جنہوں نے یہ کہا اورنقل کیا ہے ؛
اول :
سیوطی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
ابن عساکر نے وھب بن منبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ ایوب علیہ السلام کی بیوی کانام رحمۃ بنت میشان بن یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراھیم رضی اللہ تعالی عنہا تھا ۔
دیکھیں : الدرالمنثور ( 7 / 197 ) تفسیر البیضاوی میں بھی اسی طرح ہے ( 3 / 310 ) تفسیر قرطبی ( 9 / 265 ) تفسیر البغوی ( 2 / 451 ) ۔
دوم :
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
لیکن یہ اسرائیلی احادیث ہیں جو کہ صرف استشھاد کے لیے ذکر کی گئ ہیں نہ کہ اعتقاد رکھنے کے لیے ۔
اسرائلیات تین اقسام پر مشتمل ہیں :
پہلی : ہمارے پاس جوکچھ ہے اس سے ہمیں اس اسرائلی روایت کی سچائ کی شھادت سے صحت کا علم ہوجاۓ تووہ صحیح ہے ۔
دوسری : قرآن سنت کے مخالف ہونے کی بنا پر ہمیں اس کی تکذیب کا علم ہوجاۓ ۔
تیسری : وہ اسرائیلی روایت جس کی تصدیق و تکذيب کے بارہ میں بالکل خاموشی ہو ، توایسی روایت پرنہ توہم ایمان ہی لائيں گے اور نہ ہی اس کی تکذيب کریں گے ، اوراوپرجوکچھ بیان کیا گيا ہے اس کی وجہ سے وہ بیان کرنی جائز ہوگی ۔
اورغالب طور پروہ اسرائیلی روایات جن میں کوئ دینی فائدہ نہیں ہے ، اوریہی وجہ ہے کہ اکثر طور پراس میں اھل کتاب کے علماء اختلاف کرتے ہیں اور اسی سبب سے مفسرین بھی اختلاف ذکرکرتے ہیں ، جس طرح وہ اس جیسے معاملہ ذکر کرتے ہیں : اصحاب کہف کے نام اوران کے کتے کا رنگ اور ان کی تعداد ، موسی علیہ السلام کی لاٹھی کس درخت کی تھی وغیرہ جو اشیاء اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مبھم رکھیں ہیں اور جن کی تعیین کا مکلفین کونہ توکوئ دنیاوی اور نہ ہی دینی فائد ہی حاصل ہوتا ہے ۔ مجموع الفتاوی ( 13 / 366 - 367 ) ۔
اورشیخ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اورمفسرین حضرات اصحاب کہف کے کتے کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کا نام قطمیر ، اور بعض حمدان کا نام ذکر کرتے ہیں ، ہم اس جیسی اشیاء سے کلام کولمبانہیں کرتے جس سے کوئ فائدہ بھی نہیں ہوتا ۔
قرآن مجید میں بہت سی ایسی اشیاء ہیں جنہیں نہ تواللہ تعالی نے اور نہ ہی اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے بیان کیا ہے ، اور نہ ہی ان کے بیان میں کچھ ثبوت ہی ملتا ہے ، ان اشیاء کے متعلق بحث کرنا کوئ فائدہ مند نہیں ہے ۔
دیکھیں کتاب : اضواء البیان للشنقیطی رحمہ اللہ تعالی ( 4 / 48 ) ۔
واللہ تعالی اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ