اہل کتاب کی کتابوں کودیکھنااورانٹرنیٹ کےذریعےان سےبات چیت کرنےکاحکم؟

مجھےان افکارسےڈرہے جو بعض عیسائی انٹرنیٹ کےذریعے پھیلارہےہیں وہ ایسےلیٹر بھیجتےہیں جن میں مزین شدہ قصوں کےساتھ مسلمانوں کوعیسائیت کی دعوت دی جاتی ہے ۔
میں یہ چاہتاہوں کہ یہ پتہ چلےکہ ہم اسکندراعظم کےبارے میں ان کا کیاردکریں جس کےبارہ میں انکاخیال یہ ہے کہ وہ تینتیس (33) برس کی عمرمیں فوت ہوگیاتھاحالانکہ قرآن میں یہ ثا بت ہے کہ وہ بڑ ھا پے کی عمر میں فوت ہوا تھا ؟۔

الحمد للہ
عیسائی جوکچھ انٹر نیٹ یادوسرے وسائل اعلام کےذریعے سے پیلار ہے ہیں انکاپڑھناجائزنہیں اورنہ ہی ان کےساتھ بات چیت اورمناقشات وغیرہ میں حصہ لیناچاہۓالایہ کہ کوئی ایساعالم ہوجوکہ اس کا اہل ہواوراس کے پاس اس کا علم اورمناظرے اورجدال کےطریقےجانتاہو اورپھراس کے پاس دلائل بھی ہوں تووہ اس میں حصہ لےسکتاہے لیکن عام آدمی اس میں نہ پڑے ۔

بہت سےاہل علم نےاہل کتاب کی کتابوں کوپڑھناقطعی طورپرحرام قراردیا ہے الایہ کہ جوعلم میں رسوخ حاصلی کرچکےہوں وہ یہ کر سکتےہیں تا کہ ان کاردکیاجاسکے ،کیونکہ ہمیں تواس بات کا حکم ہے کہ ہم نہ توان کی وہ اخبارجن کاہماری شریعت میں کوئی وجودنہیں ملتااس کی تکذیب کریں اور نہ ہی اس کی تصدیق کریں ۔

اور عا می شخص جسے علم ہی نہیں اس سے بے خوف نہیں ہواجاسکتا کہ وہ ایسی چیزکی تصدیق کربیٹھے جوکہ جھوٹی ہویاپھر اس کی تکذیب کردےجوکہ سچی اور حق ، اور اس لۓ بھی کہ دل کمزورہوتے ہیں اورشبہ اچک لینے والاہوتا ہے اورہوسکتاہے کہ شبہ دل میں جاگزیں ہوجائے تواس کا نکا لنا مشکل ہوجائے ۔

مستقل فتاوی کمیٹی کے فتوی میں ہے جسے ہم بالنص ذیل میں درج کرتے ہیں :

{ پہلی سب آسمانی کتابوں میں بہت ساری تحریف اوران میں کمی اور زیادتی ہوچکی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نےاس کاذ کربھی کیا ہے ، توکسی مسلمان کےلۓیہ جائزنہیں کہ وہ ان میں کسی بھی کتاب کویا ان میں کوئی چیز پڑ ھے الا یہ کہ اگروہ شخص علم میں رسوخ رکھتا ہے اوراس کا ارادہ یہ ہے کہ وہ ان میں جوتحریفات اورآپس میں اختلاف پایاجاتا ہے اسے بیان کرے تووہ یہ کرسکتا ہے ۔ }

دیکھیں مستقل فتوی کمیٹی : ( 3/ 311) فتاوی اللجنتہ الدالممتہ (3/311)

توآپ کے پاس جوبھی عیسائیوں کی طرف سے لیڑآئے ہیں انہیں جلدی سے تلف کر کے جتنی جلدی ہوسکے ان سے چھٹکاراحاصلی کرلیں ۔

اور آپ نے جوسکندراعظم کاذ کرکیا ہے یہ ایک ایساشبہ ہے جوکہ عیسائیوں کی کند ذہنی پردلالت اور جہالت کی علامت ہے ، اوراس کاجواب کئی وجوہ کے ساتھ ہے :

اول :

قرآن کریم میں ذی القرنین ( اسکندر ) کی عمرکاتذکرہ نہیں اورنہ ہی اس دورکا جس میں گزر ا ہے ۔

دوم :

ذوالقرنین جس کاذ کرقرآن مجیدمیں ہے یہ وہ مقدونی اوریونانی سکندرنہیں جس نےاسکندریہ کوبنایا تھا اوریہی (33) برس کی عمرمیں فوت ہواہے جیسا کہ عیسائیوں کی کتابوں میں لکھا ہواہے اوراس نے مسیح علیہ السلام کی ولادت سے (323) برس قبل زندگی گزاری ہے ۔

اورجس ذوالقرنین کاتذکرہ قرآن میں ملتاہے وہ توابراہیم علیہ السلام کےدورمیں تھا اوریہ بھی کہاجاتا ہے کہ وہ ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ پرمسلمان ہواتھا اوراس نے پیدل حج بھی کیااورلوگوں کااس میں اختلاف ہے کہ آیاوہ نبی ہے یا کہ نیک اورصالح بندہ اورعادل باشاہ لیکن اس میں اتفاق ہے کہ وہ مسلمان اورموحداوراللہ تعالی کامطیع اورفرمانبردارتھا ۔

اورصحیح اورصواب بات یہ ہے کہ اس کے معاملہ میں ہمیں توقف اختیارکرناچاہۓ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :

( مجھےاس کاعلم نہیں کہ اس نے کسی نبی کی پیروی کی یا کہ نہیں ، اورمیں یہ بھی نہیں جانتا کہ ذوالقرنین نبی تھایا کہ نہیں )

امام حا کم اورامام بیہقی نے اسے روایت کیا اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نےاسے صحیح الجامع ۔ حدیث نمبر۔ (5524) میں صحیح کہاہے ۔

سوم :

اس نیک بندے اوراسکندرمقدونی جو کہ کافرتھا کے درمیان مسلمان علماء کےہاں فرق معروف ہے ابن کثیررحمہ اللہ نےبدایہ والنہایہ میں ۔ (1/493) فرمایاہے کہ :

( قتادہ رحمہ اللہ تعالی کاقول ہے کہ : اسکندرجوکہ ذوالقرنین ہے اوراس کاوالدسب سے پہلاقیصرتھاجوکہ سام بن نوح علیہ السلام کی اولادمیں ساتھا ۔

اوردوسراذوالقرنین جوکہ اسکندربن فلپیس بن رومی بن الاصقربن یقزبن العیص بن اسحق بن ابراہیم الخلیل ، حافظ بن عسا کرنےتاریخ بن عسا کرمیں اسی طرح نسب بیان کیاہےالمقدونی الیونانی المصری اسکندریہ کابانی جس کےایام سےرومی تاریخ کا آغاز کرتے ہیں ۔

اوریہ پہلے سے بہت زمانہ بعد کا ہے اوریہ ۔ 300 ۔ برس قبل مسیح کی بات ہے اورفلسفی ارطاطالیس اس کاوزیرتھااوریہ وہی ہے جس نےدارابن دارا کوقتل کیااورفارسیوں کےباشاہ کوذلیل ورسواکیا اوران کی زمین کوروندھا ۔

اس پرتنبیہ ہم نےاس لۓکی ہے کہ ا کثرلوگوں کایہ اعتقادہے کہ یہ دونوں ایک ہی ہیں اورقرآن میں جس کاذ کر ہے وہ جس کاوزیرارطاطالیس تھاتواس کے سبب سے بہت بڑی غلطی اوربڑے فسادکاشکارہوجاتے ہیں حالانکہ پہلاتوایک نیک اورصالح بندہ اورعادل بادشاہ تھا ، اوردوسرامشرک اوراس کاوزیرفلسفی تھااور پھران دونوں کے درمیان دوہزارسال سے بھی زیادہ کاوقفہ ہے تو کہاں وہ اوریہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے اورنہ ہی آپس میں ان دونوں کی کوئی مشابہت ہے مگروہ شخص جو کہ کندذہن ہواوراسے حقائق کا علم نہ ہواس کےہاں ان دونوں کےہاں کوئی فرق نہیں۔) ابن کثیررحمہ اللہ تعالی کی کلام ختم ہوئی ۔

چہارم :

عیسائیوں کی کتاب مقدس میں دوسرے اسکندر کی متعلق مکمل معلومات نہیں ہیں تو پہلے اسکندر کی کہاں ؟

اوراس میں بھی انتہائی اورآخری چیزان کے ہاں دانیال کی خواب ہی ہے جس میں ان نے یہ خیال اور گمان ہے کہ اس خواب کے اندراس اسکندر کی بادشاہی اوراس کےبعداس کی مملکت منقسم ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔

پنجم :

یہ کہ اگرفرض کرلیاجائے کہ ان کی کتاب اورقرآن مجید میں کسی شخصیت یا پھر کسی حاد ثےکے متعلق اختلاف ہے تواس میں تعجب اوراجنبیت والی کون سی چیز ہے ؟

اوریہ اختلافات کتنے ہی زیادہ ہیں اور پھرخاص کرانبیاء کےقصوں میں مثلاابراہیم اورنوح اورموسی اورلوط اور داوداورعیسی علیہم السلام ۔

توعیسائیوں کے پاس ان کتابوں کی ایک بھی متصل سندنہیں جن پرا نکاایمان ہے اورنہ ہی وہ ان کے حالات سے واقف اورانہیں ان کی معرفت ہے جنہوں نے انکاترجمہ کیاہے اورپھراس میں دسیوں ایسےمسائل ہیں جو کہ آپس میں ایک دوسرے کےمخالف ہیں اورآپس میں ان کاتناقض ہے جس سے اس دعوی کی نفی ہوتی ہے کہ یہ روح القدس کے الہام کےساتھ لکھی گئی ہیں اوران میں کوئی غلطی نہیں ، اورآپ کے لۓ اتناہی کافی ہے کہ ان کاعیسی علیہ السلام کے نسب میں بھی اختلاف ہے ۔

توان تحریف شدہ کتابوں میں جوکچھ ہےاس کاحکم قرآن مجید پرکیسےلگایاجا سکتا ہے جوکہ اللہ تعالی کی حفاظت سےمحفوظ ہے ؟

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ