خاوند ديندار اور بيوى سے محبت كرتا ہے ليكن بيوى اس سے جاذبيت نہيں ركھتى
ميرى كچھ عرصہ قبل شادى ہوئى ہے، ليكن ميں اس شادى پر خوش اور سعادتمند نہيں، اور ميرے خاوند ميں كوئى عيب نہيں ہے، يا پھر كوئى نفرت والى چيز بھى نہيں ہے، بلكہ وہ صوم و صلاۃ كا پابند ہے اور نمازيں مسجد ميں ادا كرتا اور اخلاق جميلہ كا مالك بھى ہے، اور اللہ كا تقوى كرنے كى كوشش كرتا ہے.
مشكل يہ ہے كہ ميں اس سے محبت نہيں كرتى، حالانكہ ميں ہميشہ يہى چاہتى تھى كہ كسى دين كا التزام كرنے والے شخص سے شادى كروں، ہو سكتا ہے ميں نے يہ رشتہ قبول كرنے ميں جلد بازى سے كام ليا ہو كيونكہ ميں شادى سے قبل اس شخص كو اچھى طرح نہيں جانتى تھى.
اور عقد نكاح كے عرصہ ميں بھى بعض اوقات محسوس كرتى تھى كہ مجھے يہ رشتہ قبول نہيں كرنا چاہيے، مجھے خدشہ ہے كہ اندھيرے مستقبل ميں اس سے عليحدہ نہ ہو جاؤں ليكن ميں ابھى تك متردد ہوں.
صرف ايك چيز مجھے مطئمن كرتى ہے كہ ميں نے شادى سے قبل استخارہ كيا تھا، مجھے معلوم نہيں ہو رہا كہ اب ميں اس حالت ميں كيوں ہوں، اور آيا كيا يہ حقيقتا امتحان تو نہيں ہے، يا كہ ميں نے يہ غم خود اپنے آپ پيدا كيا ہے.
اور كيا ميں اس شعور اور احساس كے ہوتے ہوئے يہ شادى مكمل بھى كر سكوں گى يا نہيں اور اس سے اپنى اولاد پيدا كر سكوں گى، اور وہ بڑے ہوں گے، اور كيا ميرى اس شخص كے ساتھ زندگى راضى و خوشى بسر ہوگى جس پر ميں راضى ہى نہيں.
يا مجھے يہ سب كچھ بھول كر بغير كسى شعور اور احساس كے اپنے اس خاوند كے ساتھ زندگى بسر كرنى چاہيے
الحمد للہ:
اول:
اللہ سبحانہ و تعالى كى انسان پر نعمتيں بہت زيادہ اور عظيم الشان ہيں، اور وہ ان نعمتوں كو شمار كرنے سے قاصر ہے تو پھر ان سب نعمتوں كا شكر كيسے ادا كر سكتا ہے ؟!
اسى ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے عظيم نعمتوں كو بيان كر كے انسان كو ظالم اور جاہل كا وصف ديا ہے، اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور اگر تم اللہ كى نعمتوں كو شمار كرنے لگو تو انہيں شمار نہيں كر سكتے، يقينا انسان ظالم اور ناشكرا ہے }ابراہيم ( 34 ).
اس ليے سائلہ كو جان لينا چاہيے كہ آپ اللہ كى نعتوں ميں لوٹ پوٹ ہو رہى ہيں، كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے تمہيں نيك و صالح خاوند عطا كيا، اور پھر ايسا گھر ديا جو تمہارے ليے ٹھكانہ اور سر چھپانے كى جگہ ہے.
حالانكہ بہت سارى عورتيں ايسى ہيں جو آہيں بھر رہى ہيں كہ نہ تو ان كے خاوند ہيں اور نہ ہى ان كے پاس سر چھپانے كے ليے گھر، اور جنہيں ملا بھى تو وہ كہتى ہيں كہ اس كا خاوند ظالم ہے، يا پھر فاجر و فاسق.
اور اس وقت بہت سارى عورتيں فقر و فاقہ اور جنگوں كى بنا پر در بدر كى ٹھوكريں كھا رہى ہيں، اور آپ كو سب نعمتيں حاصل ہيں، اس ليے آپ ان نعمتوں كى حفاظت كرنے كے ليے اللہ كا شكر ادا كريں، اور ان نعمتوں كا حق ادا كريں اور كفران نعمت اور ناشكرى سے اجتناب كريں, وگرنہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ سے يہ نعمتيں چھين لےگا.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور جب تمہارے پروردگار نے تمہيں آگاہ كر ديا كہ اگر تم شكر گزارى كرو گے تو بيشك تمہيں اور زيادہ دوں گا، اور اگر تم ناشكرى كرو گے تو يقينا ميرا عذاب بہت سخت ہے }ابراہيم ( 7 ).
آپ اس كى حالت ديكھيں جس سے يہ نعمتيں چھن چكى ہيں يا پھر اس كے پاس كم ہيں تو پھر آپ كو ان نعتوں كى قدر كا علم ہوگا جو آپ پر اللہ نے كر ركھى ہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وصيت بھى يہى ہے تا كہ كوئى اللہ تعالى كى نعمتوں كى ناقدرى نہ كرے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اسے ديكھو جو تم سے نيچے ہے، اسے مت ديكھو جو تم سے اونچا ہے، اس سے تم اللہ كى نعمت كى قدر زيادہ كرو گے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2963 ).
دوم:
ہميں تو آپ كے ليٹر ميں آپ كى اس بات سے بہت تعجب ہوا ہے كہ:
" شادى ميں سے قبل ميں نے اپنے خاوند كو اچھى طرح نہيں پہچانا "!
كيا آپ يہ سمجھتى ہيں كہ شادى سے قبل مرد و عورت كے مابين جو تعلقات ہوتے ہيں وہ شرعى ہيں يا نہيں ؟
اور كيا آپ كا خيال ہے كہ اس طرح كے تعلقات سے آدمى كو پہچان ليتا ہے يا پھر عورت مرد كو پہچان ليتى ہے ؟
اس تعارف كے عرصہ ميں اكثر طور پر جو كچھ ہوتا ہے وہ شرعى نہيں، بلكہ وہ تو شريعت كے مخالف ہوتا ہے؛ كيونكہ بات چيت اور نظر ميں وسعت پيدا كى جاتى ہے، اور پھر بےپردگى والا اختلاط اور حرام خلوت كى جاتى ہے، اس كے علاوہ بہت سارى شرعى مخالفتيں ہوتى ہيں جو لوگوں ميں معروف ہيں.
اس عرصہ ميں مرد كى حقيقت ظاہر نہيں ہوتى، اور نہ ہى عورت كى حقيقت واضح ہوتى ہے كہ وہ كيسى ہے، بلكہ ہر ايك يہى كوشش كرتا ہے كہ وہ دوسرے كے سامنے اچھا بن كر آئے، اور عالى و بلند اخلاق كا مظاہرہ كرے، ليكن اصل حقائق تو شادى كے بعد ہى واضح ہوتے ہيں.
مختلف ممالك ميں سروے سے ثابت ہوا ہے كہ جس شادى سے پہلے آپس ميں " حرام محبت " تعلق ہوتا ہے وہ اس شادى سے زيادہ ناكام ہوتى ہے جس سے قبل اس طرح كا تعلق نہيں پايا جاتا، اس كى تفصيل سوال نمبر ( 84102 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے، آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.
ہمارے ليے آپ كو يہى تنبيہ كرنا كافى ہے كہ: اس عرصہ ميں آپ كوئى ضرورت نہيں كہ آپ اپنے خاوند كا تعارف حاصل كريں، آپ نے اپنے خاوند ايسے اوصاف اور اخلاق بيان كيے ہيں جو اس تعارف كے عرصہ سے مستغنى كر ديتے ہيں.
شادى سے قبل محبت دھوكہ پر مبنى جذبات پر مشتمل ہوتا ہے؛ كيونكہ اس عرصہ ميں تو عورت كا خارجى مظہر ہى مرد كو اس كى محبوب بناتا ہے! ليكن شادى كے بعد تو ميل جول اور معاشرت اس كا سبب بنتا ہے، اسى ليے شادى كے بعد اللہ سبحانہ و تعالى خاوند اور بيوى كے مابين محبت و مودت اور الفت پيدا كر ديتا ہے، شادى سے قبل نہيں.
جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور اس كى نشانيوں ميں سے ہے كہ تمہارى ہى جنس سے بيوياں پيدا كيں تا كہ تم ان سے آرام و سكون پاؤ، اور اس نے تمہارے درميان محبت اور ہمدردى قائم كر دى يقينا غور و فكر كرنے والوں كے ليے اس ميں بہت سى نشانياں ہيں }الروم ( 21 ).
سوم:
آپ نے اپنے سوال ميں يہ بھى كہا ہے كہ:
" ميں ہميشہ كسى دينى التزام كرنے والے شخص سے شادى كى رغبت ركھتى تھى "
ہم آپ سے كہتے ہيں: آپ كى يہ خواہش اور تمنا تو پورى ہو چكى ہے، اور آپ كى رغبت حاصل ہوچكى، چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى نے آپ كو ايسا خاوند ديا جس ميں آپ نہ كوئى اخلاقى عيب نكال سكى ہيں اور نہ كوئى دينى عيب نكال سكيں ہيں.
اور پھر آپ نے شادى كرنے سے قبل استخارہ بھى كيا، اور يہ ان شاء اللہ اس توفيق كا سب سے بڑا سبب ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ آپ كے ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے جو مقدر ميں ركھا اور تقسيم كى اس پر راضى ہو جائيں.
اور آپ علم ركھيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے آپ كے ليے خير و بھلائى اختيار كى ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو ناپسند كرو حالانكہ وہ تمہارے ليے بہتر اور اچھى ہو، اور ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو پسند كرو حالانكہ وہ تمہارے ليے برى ہو، اور اللہ ہى جانتا ہے، تم نہيں جانتے }البقرۃ ( 216 ).
مجہول مستقبل كے خوف ميں ہم بھى آپ كے ساتھ ہيں جب آپ اس نيك و صالح خاوند سے عليحدہ ہونے كا نہ سوچيں، آپ كو علم ہے كہ اس وقت معاشرہ طلاق شدہ عورت كو كس نظر سے ديكھتا ہے، چاہے وہ نيك و صالح عورت ہى كيوں نہ ہو، اور اپنى پہلى شادى ميں اس كے ساتھ ظلم ہى ہوا ہو، يہ ايك غلط نظر ہے.
پھر يہ بتائيں كہ جب معاشرہ كو يہ علم ہو گا كہ آپ ايك نيك و صالح شخص سے عليحدہ ہوئى ہيں اور اس عليحدگى كا كوئى سبب بھى نہيں، اور نہ ہى خاوند ميں كوئى عيب تھا!!
بلكہ ہم تو اس سے بھى زيادہ بڑھى چيز پر خوفزدہ ہيں.
كيا آپ نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا درج ذيل فرمان نہيں سنا:
" جس عورت نے بھى بغير كسى سبب كے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 23420 ) اور ( 20949 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
!
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ