جہنم سے نكل كر جنت ميں جانے والا جنت ميں فائدہ كيسے حاصل كريگا ؟

جو شخص كچھ دير جہنم ميں رہا اور پھر اسے نكال كر جنت ميں داخل كر ديا جائے تو وہ جنت ميں كس طرح فائدہ حاصل كريگا؟
اور جہنم ميں گزرے ہوئے وقت كے نفسياتى دباؤ كے ہوتے ہوئے وہ جنت كے فائدہ كو كس طرح محسوس كرينگے ؟

الحمد للہ:

اہل سنت و الجماعت كا اعتقاد ہے كہ مسلمانوں ميں سے كچھ ايسے افراد بھى ہونگے جو بغير حساب و كتاب اور عذاب كے جنت ميں داخل ہونگے، اور كچھ ايسے ہونگے جو بغير حساب كے جنت ميں جائينگے، اور كچھ ايسے ہونگے جو جہنم ميں آگ كا عذاب چكھنے كے بعد جنت ميں جائيگے، جتنا اللہ چاہے گا انہيں عذاب ہوگا اور پھر وہ جنت ميں داخل كر ديے جائينگے.

ان كا جہنم سے نكال كر جنت ميں داخل كرنا انہيں جنت ميں شقاوت و بدبختى يا پھر نااميدى ميں نہيں ڈالےگا؛ كيونكہ جنت تو نعمتوں والا گھر ہے، اور ان كو بھى وہى كچھ ملےگا جو باقى جنتيوں كو ملےگا جس كا كتاب و سنت ميں ذكر بھى كيا گيا ہے.

دلائل ميں يہ نہيں ملتا كہ جو لوگ جہنم سے نكال كر جنت ميں داخل كيے جائينگے انہيں جہنم ميں عذاب كى وجہ سے كوئى پريشانى ہوگى، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسے افراد كى ہميں علامات و نشانياں بھى بتائيں ہيں، جس ميں سے كچھ درج ذيل ہيں:

1 ـ انہيں آب حيات والى نہر ميں ڈالا جائيگا اور وہ نئے سرے سے اگيں گے.

ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب جنتى جنت ميں اور جہنمى جہنم ميں داخل ہو جائينگے تو اللہ عزوجل كہيں گے:

جس كے دل ميں رائى كے دانہ كے برابر بھى ايمان ہے اسے جہنم سے نكال دو، تو انہيں نكال ليا جائيگا، وہ جل گئے ہونگے اور جل كر سياہ كوئلہ بن چكے ہونگے، تو انہيں نہر حيات ميں ڈالا جائيگا، تو وہ اس طرح اگنا شروع ہونگے جس طرح سيلاب كے پانى ميں دانہ اگتا ہے "

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كيا تم ديكھتے نہيں كہ وہ دانہ پيلا لپٹا ہوا اگتا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6192 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 184 ).

امتحشو: يعنى وہ جل چكے ہونگے، اور المحش: جلد كے جلنے اور ہڈياں ظاہر ہونے كو كہا جاتا ہے.

ديكھيں: النھايۃ فى غريب الحديث ( 4 / 302 ).

حمما: يعنى وہ كوئلے كى طرح سياہ جسم ہو چكے ہونگے.

ديكھيں: النھايۃ فى غريب الحديث ( 1 / 444 ).

الحبۃ: حاء پر زير ہے، بيچ كو حبہ كہا جاتا ہے، جو سبزي گھاس وغيرہ كا بيچ ہے اور يہ سيلابى پانى كے كناروں وغيرہ پر اگ آتا ہے.

حميل السيل: حاء پر زبر اور ميم پر زير ہے، سيلابى پانى كے اوپر جو مٹى اور جھاگ وغيرہ ہوتى ہے، اس كا معنى يہ ہے كہ: جو سيلابى پانى اپنے ساتھ لاتا ہے، اس سے مراد اگنے ميں تشبيہ دينا ہے كہ اس كى طراوت اور تيزى اور خوبصورتى كتنى ہوتى ہے.

ديكھيں: شرح مسلم نووى ( 3 / 22 - 23 ).

2 ـ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان كيا ہے كہ جہنم سے نكلنے كے بعد ان كى حالت بدل جائيگى.

جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جہنميوں كے بارہ ميں فرمايا:

" جہنمى جہنم ميں جانے كے بعد نكالے جائنگے، وہ وہاں سے نكليں گے گويا كہ وہ تلوں كى لكڑياں ہيں، انہيں جنت كى ايك نہر ميں داخل كيا جائيگا تو وہ اس ميں غسل كرينگے اور وہاں سے نكليں گے تو اس طرح ہونگے جيسے سفيد كاغذ ہوتا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 191 ).

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

قولہ: وہ وہاں سے نكليں گے گويا كہ تلوں كى لكڑياں ہيں " دو سين بغير نقطہ كے پہلى پر زبر اور دوسرى پر زير ہے اور يہ سمسم كى جمع ہے جس سے تيل نكالا جاتا ہے، امام ابو سعادات المبارك بن محمد بن عبدالكريم الجزرى معرف ابن اثير رحمہ اللہ كہتے ہيں: اس كا معنى ـ واللہ اعلم ـ يہ ہے كہ:

سماسم سمسم كى جمع ہے، اس كى لكڑياں جب اتار كر درخت ميں ركھى جائيں تا كہ اس كے دانے باريك اور سياہ اتاريں جائيں گويا كہ وہ جلى ہوئى ہيں اس طرح اس سے يہ لوگ مشابہ ہوئے.

قولہ: وہ وہاں سے نكليں گے گويا كہ وہ سفيد كاغذ ہيں "

يہ قرطاس كى جمع ہے قاف پر زير اور پيش كے ساتھ دو لغت ہيں اور يہ: اس صحيفے اور كاغذ كو كہا جاتا ہے جس ميں لكھا جائے، انہيں اس سے اس ليے تشبيہ دى گئى ہے كہ يہ غسل كرنے كے بعد بہت زيادہ سفيد ہونگے اور ان كى سارى سياہى ختم ہو جائيگى.

ديكھيں: شرح مسلم ( 3 / 52 ).

اور بخارى كى روايت ميں ہے:

جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" سفارش كے ساتھ جہنم سے لوگ اس حالت ميں نكليں گے كہ وہ ثغارير ہيں، ميں نے عرض كيا كہ ثغارير كيا ہيں ؟ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: الضغابيس "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6190 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ثغارير كے متعلق ابن اعرابى كہتے ہيں: يہ چھوٹى ككڑى ہى اور ابو عبيد كا قول بھى يہى ہے.

اس كا مقصود باريكى اور سفيدى كا وصف بيان كرنا ہے.

اور ضغانيس كے متعلق اصمعى كہتے ہيں:

يہ ايسى چيز ہے جو گھاس كى جڑ ميں اگتى اور ہليون بوٹى كے مشابہ ہوتى ہے جو بھون كر تيل اور سركہ كے ساتھ كھائى جاتى ہے.

اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: يہ درخت اور اذخر گھاس كى جڑ ميں ہوتى ہے اور تقريبا ايك بالشت لمبى اور انگلى جتنى باريك ہوتى ہے اور اس كے پتے نہيں ہوتے اور ذائقہ نمكين ہوتا ہے.

اور حربى كى غريب الحديث ميں درج ہے:

الضغبوس: ايك بوٹى ہے جو انگلى جتنى لمبى ہوتى ہے، اس سے كمزور شخص كو تشبيہ دى گئى ہے.

تنبيہ:

ان كى صفت كى يہ تشبيہ اس وقت كى ہے جب وہ اگ جائيں گے، ليكن جب وہ جہنم سے نكليں گے تو وہ كوئلہ كى طرح سياہ ہونگے جيسا كہ اس كے بعد والى حديث ميں آ رہا ہے.

ديكھيں: فتح البارى ( 11 / 429 ).

3 ـ ان ميں سے ہر ايك شخص لولو موتى كى طرح ہو گا، اور اللہ سبحان و تعالى اس پر اپنى رضامندى نازل كريگا اور كبھى بھى ناراض نہيں ہو گا.

ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" … اللہ سبحانہ و تعالى كہے گا: فرشتے بھى سفارش كر چكے، اور انبياء نے بھى سفارش كر لى، اور مومن بھى سفارش كر چكے ہيں، اور اب ارحم الراحمين كے علاوہ كوئى نہيں ہے، چنانچہ اللہ ارحم الراحمين آگ سے ايك مٹھى بھريں گے اور ايسے لوگوں كو نكاليں گے جنہوں نے كبھى بھى كوئى نيكى اور خير كا كام نہ كيا ہو گا اور وہ جل كر كوئلہ بن چكے ہونگے.

انہيں جنت كے سامنے ايك نہر ميں ڈالا جائيگا جسے نہر حيات كہا جاتا ہے، تو وہ اس نہر سے اس طرح نكليں گے جيسے بيج سيلابى پانى ميں اگتا ہے…

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

تو وہ موتى كى طرح نكليں گے ان كى گردنوں ميں مہر ہوگى جنتى انہيں پہچانتے ہونگے، كہ يہ لوگ اللہ كے آزاد كردہ ہيں جنہيں اللہ سبحانہ و تعالى نے بغير كسى عمل اور نيكى كا كام كيے ہى جنت ميں داخل كيا ہے.

پھر اللہ سبحانہ و تعالى فرمائيگا: تم جنت ميں داخل ہو جاؤ تم جو كچھ ديكھتے ہو وہ تمہارا ہے، تو وہ عرض كريں گے: اے ہمارے پروردگار تو نے ہميں وہ كچھ ديا ہے جو جہان والوں ميں سے كسى كو بھى نہيں ديا، تو اللہ عزوجل فرمائينگے:

ميرے پاس تمہارے ليے اس سے بھى بہتر چيز ہے، تو وہ عرض كرينگے اے ہمارے پروردگار اس سے افضل كيا چيز ہے ؟

تو اللہ عزوجل فرمائيگا: ميرى رضا و خوشنودى ہے، ميں تم پر كبھى بھى ناراض نہيں ہونگا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 7002 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 183 ).

يہ عظيم حديث ہے جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جہنم سے نكل كر جنت ميں جانے والوں كى حالت بيان كى ہے، اور اس ميں ان لوگوں كى ايسى عزت و تكريم بيان ہوئى ہے جو اللہ انہيں ہبہ فرمائيگا، جو اللہ كے فضل و كرم ميں شامل ہوتا ہے وہ عزت و تكريم والى اشياء درج ذيل ہيں:

ا ـ نہر حيات ميں ڈالا جانا اور نئے سرے سے پيدائش.

ب ـ وہ نہر سے اس طرح نكليں گے جيسے موتى ہوتا ہے اور ان كى گردنوں ميں مہريں ہونگى.

ج ـ اللہ سبحانہ و تعالى انہيں وہ كچھ عطا كريگا جو انہيں جنت ميں نظر آئيگا اور جو پائيں گے.

د ـ ان نعمتوں اور انتہائى خوشى و سرور حاصل ہونے كى وجہ سے ان كا گمان ہو گا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ان كى وہ عزت و تكريم كى ہے جو كسى اور كى نہيں كى.

ھـ ـ ان پر اللہ سبحانہ و تعالى كى رضامندى و خوشنودى نازل ہو گى، اور اللہ ان پر كبھى بھى ناراض نہيں ہو گا.

جنت ميں داخل ہونے والوں كى اللہ كى جانب سے عزت و تكريم اس سے بھى واضح اور يقينى ہوتى ہے:

عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مجھے اس آخرى شخص كا علم ہے جو سب سے آخر ميں جہنم سے نكال كر سب سے آخر ميں جنت ميں داخل كيا جائيگا، وہ شخص جہنم سے گھسٹ كر نكلےگا، تو اللہ عزوجل اسے كہينگے:

جاؤ جا كر جنت ميں داخل ہو جاؤ، تو وہ شخص جنت كى جانب جائيگا تو اسے ايسا لگے گا كہ جنت تو بھرى ہوئى ہے، وہ واپس آ كر عرض كريگا: اے ميرے پروردگار جنت تو بھرى ہوئى ہے، تو اللہ سبحانہ و تعالى كہےگا:

جاؤ جا كر جنت ميں داخل ہو جاؤ، تو وہ شخص جائيگا تو اسے ايسا خيال ہو گا كہ جنت تو بھرى ہوئى ہے، وہ پھر واپس آ كر عرض كريگا: اے اللہ ميں نے اسے بھرا ہوا پايا ہے، جاؤ جا كر جنت ميں داخل ہو جاؤ، تجھے جنت ميں دنيا اور اس كے دس گناہ جتنى جگہ ملے گى ـ يا فرمايا: تجھے دنيا كى دس مثل ملےگا ـ تو وہ شخص عرض كريگا:

اے اللہ كيا مجھ سے مذاق كر رہے ہو ـ يا كہےگا ـ ميرے ساتھ ہنسى كر رہے ہو ـ حالانكہ تو مالك الملك اور بادشاہ ہے، راوى بيان كرتے ہيں كہ: ميں نے ديكھ كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اتنا ہنسے كہ آپ كى داڑھ نظر آنے لگيں، اور آپ فرمايا رہے تھے: يہ شخص جنت ميں سب سے كم درجہ اور مقام والا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6202 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 186 ).

4 ـ ان پر جہنميوں يا جبار كے آزاد كردہ كے نام كا اطلاق ہو گا، اور پھر بعد ميں يہ نام ختم كر ديا جائيگا.

انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كچھ لوگ آگ سے نكليں گے كہ انہيں آگ كا عذاب جلا چكا ہوگا، چنانچہ وہ جنت ميں داخل ہونگے اور جنتى انہيں جہنميوں كے نام سے پكاريں گے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6191 ).

اور مسند احمد ميں انس رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" …. چنانچہ وہ جنت ميں داخل ہونگے اور جنتى انہيں كہيں گے: يہ لوگ جہنمى ہيں!! تو اللہ جبار فرمائيگا: بلكہ يہ جبار عزوجل كے آزاد كردہ ہيں "

مسند احمد حديث نمبر ( 12060 ) اسے ابن مندہ نے الايمان ( 2 / 847 ) اور ابن خزيمہ ( 2 / 710 ) ميں اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے حكم تارك الصلاۃ ( 33 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور ابن حبان ميں ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كرم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ….. جنت ميں انہيں جہنميوں كے نام سے پكارا جائيگا كيونكہ ان كے چہرے سياہ ہونگے، تو وہ عرض كريں گے: اے ہمارے پروردگار ہمارا يہ نام ختم كر دے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

تو اللہ سبحانہ و تعالى انہيں جنت كى نہر ميں غسل كرنے كا حكم دينگے، تو اس طرح اس كا يہ سياہ رنگ ختم ہو جائيگا "

ابن حبان ( 16 / 458 ) نے اسے صحيح كہا ہے، اور شعيب ارناؤوط نے بھى صحيح كہا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا ہے كہ جنت ميں ايك بار غسل كے ليے ڈبكى لگانے سے ہى مسلمان شخص ہر تنگى اور تكليف كو بھول جائيگا جو اسے دنيا ميں حاصل ہوئى تھى، تو پھر جس شخص كا مستقل ٹھكانہ اور گھر جنت ہو اس كى حالت كيا ہو گى ؟!

اور يہ بعيد نہيں كہ يہ تكليف اور تنگى اس كو بھى شامل ہو جو مسلمان كو آگ ميں رہتے ہوئے حاصل ہوئى تھى.

انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" روز قيامت جہنم والوں سے اس شخص كو لايا جائيگا جو دنيا ميں سب سے زيادہ ناز و نعمت والا تھا تو اسے جہنم كى آگ ميں ايك ڈبكى دى جائيگى اور پھر اسے كہا جائيگا:

اے ابن آدم كيا تو كبھى كوئى خير ديكھى ہے ؟ كيا تجھ پر كبھى كوئى نعمت اور آسودگى بھى آئى ہے ؟

تو وہ كہےگا: اے ميرے پروردگار اللہ كى قسم نہيں.

اور جنتيوں ميں سے ايسے شخص كو لايا جائيگا جو دنيا ميں سب سے زيادہ تكليفوں اور اذيت ميں رہا اور اسے جنت ميں ايك ڈبكى دى جائيگى اور اسے كہا جائيگا: اے ابن آدم كيا تم نے كبھى كوئى تكليف اور اذيت بھى ديكھى ہے ؟

تو وہ عرض كريگا: اے ميرے پروردگار اللہ كى قسم كبھى نہيں مجھ پر كبھى كوئى تكليف نہيں آئى، اور نہ ہى ميں نے كبھى كوئى تنگى ديكھى ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2807 ).

جنت ميں ڈبكى لگانے سے ہر تكليف و اذيت اور تنگى بھول جائيگى حتى كہ آگ كا عذاب بھى اس كے علاوہ ہم نے جو بيان كيا ہے كہ نہر حيات ميں ڈالے جانے كے بعد انكى حالت بھى بدل جائيگى اس كى دليل صحيح مسلم كى درج ذيل حديث ميں پائى جاتى ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو شخص جنت ميں داخل ہو گا اسے نعمتيں حاصل ہونگى اور وہ كبھى بھى تنگى و تكليف نہيں اٹھائيگا، نہ تو اس كا لباس بوسيدہ ہوگا، اور نہ ہى اس كى جوانى ختم ہو گى "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2836 ).

يہ نعمتيں جنت ميں داخل ہونے والے سے يقينى طور پر تنگى و تكليف كى نفى كرتى ہيں، اور جنت ميں داخل ہونے والے كے ليے عام ہے، چاہے وہ پہلے جہنم ميں داخل ہوا ہو يا داخل نہ ہوا ہو.

قاضى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" اس كا معنى يہ ہے كہ جنت ثبات اور قرار كا گھر ہے، اور اس ميں كسى بھى تبديلى كا امكان نہيں؛ چنانچہ نہ تو اس كى نعمت ميں كوئى تكليف و تنگى پائى جاتى ہے، اور نہ ہى اس ميں كوئى فساد و تبديلى ہو گى… "

ديكھيں: تحفۃ الاحوذى ( 7 / 194 ).

اس سب كچھ كى بنا پر اللہ سبحانہ و تعالى نے اہل جنت كا جنت ميں داخل ہونے كے بعد حال بيان كرتے ہوئے فرمايا ہے:

} اور وہ كہيں گے سب تعريفات اس اللہ كى ہى ہيں جس نے ہم سے غم و پريشانى اور تكليف كو دور كيا، يقينا ہمارا پروردگار بڑا بخشش والا اور بڑا قدر دان ہے، جس نے ہم اپنے فضل و كرم سے ہميشہ رہنے كے مقام ميں لا اتارا جہاں نہ ہم كو كوئى تكليف پہنچےگى اور نہ ہم كو كوئى خستگى پہنچےگى {فاطر ( 34 - 35 ).

شيخ سعدى رحمہ اللہ اس كى تفسير ميں كہتے ہيں:

" يعنى: وہ گھر جس ميں ہميشہ كے ليے رہنا ہوگا، اور وہ گھر جس ميں رہنا مرغوب ہے، كيونكہ وہاں كثرت خيرات ہے اور اس كى خوشى و سرور مسلسل ہے، اور وہاں كوئى تنگى اور تكليف نہيں.

اور يہ ہم پر اللہ سبحانہ و تعالى كے فضل و كرم كى بنا پر ہے نہ كہ ہمارے اعمال كى وجہ سے، اگر اللہ سبحانہ و تعالى كا فضل و كرم نہ ہو تو ہم اس تك نہ پہنچ پاتے جہاں پہنچ گئے ہيں.

} جہاں نہ ہم كو كوئى تكليف پہنچےگى اور نہ ہم كو كوئى خستگى پہنچےگى {

يعنى: اس جنت ميں نہ تو جسمانى تھكاوٹ ہوگى، اور نہ ہى دل اور قوى كى تھكاوٹ، اور نہ ہى كثرت تمتع ميں تھكاوٹ ہو گى، يہ اس بات كى دليل ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى جنتيوں كے جسموں كو پورى صحت ميں كرديں گے، اور ان كے ليے ايسے اسباب مہيا كرينگے جو ہميشہ كے ليے راحت كا باعث ہوں، جو اس صفت كے ساتھ ہونگے كہ انہيں نہ تو كوئى تكليف اور تنگى ہو گى اور نہ ہى تھكاوٹ آئيگى، اور نہ كوئى غم اور پريشانى "

ديكھيں: تفسير السعدى ( 689 ).

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ