عورتوں كى مشابہت كرنے كى محبت ميں مبتلا شخص

دينى امور كا التزام اور نفل و نوافل كا خيال ركھنے، اور حسب استطاعت اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرنے والا شخص بچپن سے ہى ايك بيمارى كا شكار ہے، كہ وہ عورتوں جيسا لباس پہن كر اپنى خواہش پورى كرنے كا عادى ہے، كيا وہ اس فعل كى بنا پر گنہگار ہے ؟
دين كا التزام كرنے كى بنا پر بالفعل وہ اس بيمارى سے رك گيا، ليكن ابھى تك اس كى سوچ عورتوں كے ماتحت ہے اور ان سے مشابہت اختيار كرنے كے ساتھ منى يا مذى خارج ہونے كا امكان بھى ہے، تو كيا اس سے گناہ ہو گا ؟
اور كيا بغير انزال كے صرف افكار و سوچ سے بھى گناہ ہوتا ہے ؟
اور اگر اس كا حل شادى ہے تو كيا وہ اپنى بيوى كو بتا دے ، يا اگر بيوى موافق ہو تو كيا اس كے ساتھ مشابہت وغيرہ كر سكتا ہے ؟
آپ سے گزارش ہے كہ تفصيلى جواب ديں، اللہ كى قسم كتنى بار وہ اس سے توبہ كر چكا ہے، ليكن اس كا نفس پھر غالب آ جاتا ہے، اور غالبا وہ شہوت اس ميں صرف كر رہا ہے، ہميں معلومات فراہم كريں، اللہ كى قسم مجھے اپنے دين كا خطرہ پڑ گيا ہے

الحمد للہ:

ہمارى شريعت ميں مردوں كا عورتوں سے اور عورتوں كا مردوں سےمشابہت كرنا حرام ہے، بلكہ اس كى بہت سخت ممانعت آئى ہے، حتى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان افراد پر لعنت فرمائى ہے جو فطرت كى مخالفت كرتے ہيں جس پر اللہ تعالى نے انہيں پيدا فرمايا ہے.

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مردوں ميں سے عورت بننے والے مردوں اور عورتوں ميں سے مرد بننے كى كوشش كرنے والى عورتوں پر لعنت فرمائى، اور فرمايا: انہيں اپنے گھروں سے نكال كر دو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5885 ).

بلاشك و شبہ مرد كا عورت اور ہيجڑا بننے كے سب سے زيادہ واضح مظہر ميں مرد كا عورتوں جيسا لباس پہننا اور عادات و حركات ميں عورتوں كى تقليد كرنا ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورت جيسا لباس پہننے والے مرد اور مرد جيسا لباس پہننے والى عورت پر لعنت فرمائى "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4098 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود اور امام نووى رحمہ اللہ نے المجموع ( 4 / 469 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں ميں سے مرد بننے والى عورت پر لعنت فرمائى "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4099 ) امام نووى رحمہ اللہ نے المجموع ( 4 / 469 ) ميں اسے حسن اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

مناوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس حديث ميں جيسا كہ امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں: مردوں كا عورتوں سے مشابہت اختيار كرنے كى حرمت پائى جاتى ہے، اور اسى طرح اس كے برعكس عورتوں كا مردوں سے مشابہت اختيار كرنے كى حرمت بھى؛ كيونكہ جب لباس ميں مشابہت اختيار كرنى حرام ہے، تو پھر حركات و سكنات اور اعضاء ميں تصنع اور بناوٹ اور آواز ميں مشابہت اختيار كرنا بالاولى حرام اور قبيح ہے.

اس ليے مردوں كے ليے عورتوں كے ساتھ اور اس كے برعكس عورتوں كے ليے مردوں كے ساتھ مشابہت اختيار كرنا حرام ہے، بلكہ اس فعل كى سزا ميں لعنت ہونے كى بنا پر ايسا كرنےوالا فاسق ہو جائيگا " انتہى.

ديكھيں: فيض القدير ( 5 / 343 ).

جب يہ ثابت ہو چكا تو ہميں يہ علم ہوا كہ اس قسم كے " ہم جنس پرستى " عمل اور فعل شريعت ميں حرام ہے، بلكہ يہ كبيرہ گناہ ميں شامل ہوتا ہے، اس ليے نہ تو يہ عمل خود كيا جا سكتا ہے اور نہ ہى اپنى بيوى كے ساتھ ايسا كرنا جائز ہے؛ كيونكہ جب فطرت پر اللہ تعالى نے لوگوں كو پيدا كيا ہے اس كى مخالفت كا نتيجہ ہلاكت و خرابى اور فساد كے علاوہ كچھ نہيں.

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے مرد ميں مردانگى كى وہ صفات پيدا كى ہيں جو عورتوں كے لباس كا متحمل نہيں ہيں، اور نہ ہى عورتوں جيسے اعمال كى مشابہت اختيار كرنے كا متحمل ہيں.

بلاشك و شبہ جو شخص ہيجڑا پن اختيار كرنا چاہتا ہے، بلكہ وہ اس سے خوش ہوتا اور تفريح حاصل كرتا ہے، اور اسے اپنى خواہش پورى كرنے كا ذريعہ اور حق محسوس كرتا ہے، يقينا وہ ان مريضوں ميں شامل ہوتا ہے جنہيں ڈاكٹروں نے ہم جنس پرستى كا مريض شمار كيا ہے، اور وہ اسے " fetish " كا نام ديتے ہيں، اور اس طرح كى حالت كے علاج كے ليے ان كے پاس كئى قسم كے عملى اور سلوكى پروگرام ہيں جو ايسے مريضوں كے سامنے ركھے جاتے ہيں.

اس مرض ميں مبتلا شخص كو چاہيے كہ وہ نفسياتى مرض كے ڈاكٹر كے پاس جا كر چيك اپ كروانے ميں كوئى شرم محسوس مت كرے، تا كہ وہ اس بيمارى كے علاج كى نگرانى كر سكے.

ہم تو صرف يہى كر سكتے ہيں كہ اسے اللہ كى ياد دلائيں، اور اس برے وسوسے سے چھٹكارے كے ليے دينى مانع اور ركاوٹ كو ايجابى اور مؤثر عامل بنائيں، اور اسے ہيجڑوں پر اللہ كى ناراضگى كو اپنے ذہن ميں ركھنا چاہيے، اور يہ معلوم ہونا چاہيے كہ اللہ سبحانہ و تعالى ان كے حالات كا خوب علم ركھتا ہے، اور يہ دنيا چند دنوں كى زندگى ہے جو بہت ہى جلد بذاتہ ختم ہو جائيگى، اور بندے كے عمل اور آخرت كے ليے كوشش ہى باقى رہےگى.

اور ہم اسے يہ كہتے ہيں كہ وہ اللہ سبحانہ و تعالى سے مدد مانگے اللہ سب سے بہتر مدد كرنے والا ہے، اور پھر جب بندہ اپنى دعاء ميں سچائى و صدق اور اخلاص پيدا كرے اور اللہ كے سامنے گڑگڑائے اور التجاء كرے تو اللہ تعالى بھى اس كےصدق كى بنا پر اس كى دعا قبول كرتا اور اس كى مشكل و شكايت كو دور كر ديتا ہے، ليكن دعاء ميں صداقت كے ليے صدق اسباب ضرورى ہيں، اور اس كے ساتھ ساتھ كوشش و صبر اور حرص بھى كرنى چاہيے تا كہ مكمل شفايابى تك پہنچا جا سكے، اور اس حرام اور برى عادت سے چھٹكارا حاصل كيا جا سكے، اور اسے اس كوشش و صبر كا اللہ تعالى كے ہاں اجر و ثواب حاصل ہو گا.

اس بيمارى اور ميلان نسوانى سے چھٹكارا حاصل كرنے كا سب سے بہترعلاج شادى ہے؛ جو سليم اور حلال جنسى تعلقات قائم كرنے كا دروازہ كھولتى ہے، اس شادى كے انتظار كے ليے اسے اپنے اوقات كو عبادات اور فائدہ مند عادات ميں گزارنا چاہيے تا كہ اس كا نفس خواہش اور شہوات سے بچ سكے.

اور اس كے ساتھ ساتھ اسے روزے ركھنے كى حرص و كوشش كرنى چاہيے، كيونكہ روزہ ايك ايسى چيز ہے تو ارادہ كو كنٹرول كرتا ہے، اور پھر اسى سلسلہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان بھى ہے:

" اور جو كوئى شادى كى استطاعت نہ ركھے تو اسے روزہ ركھنا چاہيے، كيونكہ يہ اس كے ليے ڈھال اور بچاؤ ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1905 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1400 ).

اور اس ميں سب سے اہم اور ممد و معاون اشياء ميں حدود اللہ اور اللہ كے احكام كا خيال ركھنا، اور لوگوں كے ستر ديكھنے سے اپنى نظر كو محفوظ ركھنا، اور اپنے آپ كو شہوات كى تمنا كرنے سے روكے ركھنا شامل ہيں، كيونكہ حرام چيز كو ديكھنا ہى سب سے بڑى مصيبت ہے، اور يہى چيز انسان كو برى عادات كى طرف لے جاتى ہے، جو بعض ہم جنس پرست ديكھتے ہيں.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كيونكہ نظر بہت خطرات پيدا كرتى ہے، پھر ( حرام ديكھنا ) سوچ ميں خطرات پيدا كرتى ہے، اور شہوت كى سوچ بھى لاتى ہے، اور پھر اس كے بعد اراد شہوت كو پيدا كرتى ہے، اور پھر يہ قوى ہو كر پختہ عزم بن جاتى ہے، جس كى بنا پر برا فعل واقع ہو جاتا ہے، اور كوئى ايسى چيز ضرور ہونى چاہيے جس سے كوئى مانع ضرور ہونا چاہيے، اسى سلسلہ ميں كہا گيا ہے:

نظريں نيچى ركھنے پر صبر كرنا، اس كے بعد پہنچنے والى تكليف سے زيادہ آسان ہے " انتہى.

ديكھيں: الجواب الكافى ( 106 ).

اور يہ بھى علم ميں ہونا چاہيے كہ اس قسم كى ہم جنس پرستى كا سوچنا لازم اور ضرور اس پر عمل كرنے كىطرف لے جاتا ہے، اس ليے اسے ايسى سوچ سے دور رہنا ضرورى ہے، بلكہ وہ اپنى اس لذت كو مباح طريقہ سے اپنى بيوى سے حاصل اور پورى كرے اور اسے اس برى عادت كے ساتھ پورى كرنے پر معلق نہيں ركھنا چاہيے، كيونكہ يہ شيطانى وسوسہ ہے، اور بلاشك و شبہ سب سے زيادہ اور پورى لذت وہى ہے جو اس فطرت كے موافق ہے جس فطرت پر اللہ تعالى نے لوگوں كو پيدا فرمايا ہے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كى صحيح راستے كىطرف راہنمائى فرمائے.

واللہ اعلم .

.

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ