كيا سابقہ تعلقات كے بارہ ميں خاوند كو بتانا چاہيے
ميں جوان لڑكى ہوں ميرے ليے ايك ايسے شخص كا رشتہ آيا ہے جس ميں ہر وہ صفت پائى جاتى ہے جو ايك مسلمان لڑكى اپنے شريك حياۃ ميں ديكھنا چاہتى ہے، الحمد للہ ميں نے يہ رشتہ قبول كر ليا اور عقد نكاح بھى كچھ عرصہ قبل ہو چكا ہے.
ميں اس نوجوان ميں خير كے علاوہ كچھ نہيں ديكھتى ليكن مشكل يہ ہے كہ اس نوجوان كے رشتہ آنے سے قبل ميرى سہيلى نے مجھ سے ميرے متعلق دريافت كيا تو ميں نے اسے بتايا تھا كہ ميرے طويل عرصہ تك ايك نوجوان سے تعلقات رہے ہيں، ليكن اب يہ تعلقات ختم ہو چكے ہيں اور ميں نے اللہ سے اس كى توبہ بھى كر لى ہے.
ليكن مجھے كچھ عرصہ قبل ہى معلوم ہوا ہے كہ ميرى اس سہيلى نے اسے يہ سب كچھ بتا ديا ہے، ميں گواہى ديتى ہوں كہ ميں نے اللہ كے ہاں توبہ كر لى ہے، اور صحيح راہ پر واپس آ چكى ہوں، اور اس سے كبھى بات بھى نہيں.
ليكن مجھے جب ميرى سہيلى نے يہ بتايا تو مجھے بہت صدمہ ہوا اور ميں نے اسے ڈانٹا، ليكن سہيلى مجھے كہنے لگى اسے ان تعلقات كے بارہ ميں بتانا ہمارے ليے واجب تھا، اور مجھ پر بھى واجب ہے كہ ميں پورى صراحت كے ساتھ اسے بتاؤں، ميرا سوال يہ ہے كہ:
اگر وہ مجھ سے اس كے متعلق دريافت كرے تو كيا مجھ پر صراحت كرنى ضرورى اور واجب ہے يا كہ ميں معاملہ كو چھپانا چاہيے؟
ميں خوفزدہ ہوں كہ ميرا يہ ماضى ميرى زندگى نہ تباہ كر دے
الحمد للہ:
آپ كى سہيلى نے آپ كے رشتہ كے ليے آنے والے نوجوان كو ان سابقہ تعلقات كا بتا كر غلطى كى ہے جس سے آپ توبہ كر چكى تھيں، اس كا يہ عمل قابل تعريف نہيں اور نہ ہى شريعت كے موافق ہے اور نہ ہى اس ميں كوئى حكمت پائى جاتى ہے، كيونكہ مسلمان شخص كو تو اپنے بھائى كى پردہ پوشى كا حكم ديا گيا ہے كہ اگر كسى كو خفيہ طور پر گناہ كرتے ہوئے ديكھے تو وہ اس كى پردہ پوشى كرے، تو پھر كسى ايسے گناہ كا پردہ فاش كردہ جس سے وہ شخص توبہ كر چكا ہو اس كے بارہ ميں كيا ہوگا ؟!
اور جو كچھ آپ كى سہيلى نے كيا ہے نہ ہى يہ نصيحت و خيرخواہى ميں داخل ہوتا ہے جو شريعت نے واجب كى ہے كہ اگر كوئى كسى سے نكاح كرنا چاہے اور اس كے متعلق كسى سے دريافت كرے تو وہ اس كى خيرخواہى كرے، كيونكہ يہ تو ان صفات اور اخلاق كے بارہ ميں بتانا ہوتا ہے جس كے بارہ ميں وہ جانتا ہے اور جس كے بارہ ميں اس سے دريافت كيا جا رہا ہے كسى كے ليے بھى جائز نہيں كہ اگر كوئى شخص اپنے ماضى سے توبہ كر چكا ہو تو وہ اس راز كو افشاء كرتا پھرے.
آپ كى كلام سے جو سمجھ آتى ہے وہ يہ ہے كہ آپ كى سہيلى نے آپ كے سابقہ تعلقات كا اس نوجوان كو آپ كا رشتہ طلب كرنے سے قبل بتايا تھا، جو اس بات كى دليل ہے كہ اس نوجوان نے جب يہ معلوم كر ليا كہ آپ ان تعلقات سے توبہ كر چكى ہے اور اب صحيح راہ پر قائم ہيں تو اس نے آپ كو معذور جانا ہے اور پھر ہى رشتہ قبول كيا.
اس نوجوان نے يہ عمل كر كے بہتر اور اچھا كام كيا كيونكہ ہر ايك انسان ميں كوئى نہ كوئى غلطى پائى جاتى ہے جب وہ اس سے توبہ كر چكے تو پھر اسے اس پر كوئى ملامت نہيں كى جا سكتى اور نہ ہى اسے اس كى سزا دى جائيگى.
جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:
" توبہ كرنے والا شخص ايسے شخص كى طرح ہے جس كا كوئى گناہ نہ ہو "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 4250 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
آپ كو چاہيے كہ آپ اپنے خاوند كے ساتھ اس موضوع ميں كوئى بات چيت ہى نہ كريں، اور اگر وہ اس بات كو شروع بھى كرے تو تم اسے كہنا كہ يہ ايك شيطانى كى طرف سے تھا اور چلتے ہوئے تعلقات تھے، اور ميں اس پر نادم ہوں، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے توبہ و استغفار كى توفيق نصيب فرمائى اور توبہ كر چكى ہوں.
آپ جس ماضى سے توبہ كر چكى ہيں اس سے خوفزدہ مت ہوں، كيونكہ آپ استقامت اختيار كر چكى ہيں اور صحيح راہ پر قائم ہيں، اور اللہ سبحانہ و تعالى سے توفيق و ہدايت اور توبہ كى قبوليت كى دعا كرتى رہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور يقيناً ميں اس شخص كى توبہ قبول كرنے والا ہوں جو توبہ كرتا اور ايمان لا كر اعمال صالحہ كرتا اور پھر ہدايت كى راہ اختيار كرتا ہے }طہ ( 82 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہر ابن آدم خطاكار ہے، اور سب سے بہتر خطاكار وہ ہے جو توبہ كرنے والا ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2499 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ دونوں كو بركت سے نوازے اور آپ دونوں پر بركت نازل فرمائے اور آپ دونوں كو خير و بھلائى پر جمع فرمائے.
اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق نصيب كرنے والا ہے.
واللہ اعلم .
.
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ