ايڈز كے مريض كا مشت زنى كرنا

كيا ايڈز كے مرض كا سبب كا باعث بننے والے وائرس كے مريض جسے ابھى ايڈز كا مرض پيدا نہ ہوا ہو كے ليے مشت زنى كرنى جائز ہے ؟

الحمد للہ:

اول:

ايڈز كے وائرس والے شخص يا ايڈز كے مريض كے ليے كسى صحيح عورت سے يا كسى مريضہ عورت سے شادى كرنا جائز ہے ليكن شرط يہ ہے كہ جب عورت كو اس كى بيمارى كا علم ہو اور وہ علم ہونے كے بعد اسے بطور خاوند قبول كر لے، اور ان دونوں كے ليے جائز ہے كہ وہ اولاد پيدا نہ كرنے كا اتفاق كر ليں، يا پھر جماع اور ہم بسترى نہ كريں، اور خاوند كے ليے جائز ہے كہ وہ بيوى كے ہاتھ مشت زنى كروائے اس ميں كوئى حرج نہيں.

اور ايسے مريض كے ليے اس وقت تك شادى كرنا جائز نہيں جب تك وہ اپنى حالت اور بيمارى كا بتا نہ دے، كيونكہ اسے چھپانا دھوكہ اور حرام ہے، اور اگر وہ اسے چھپاتا ہے اور بعد ميں بيوى كو علم ہو جائے تو اسے نكاح فسخ كرنے كا حق حاصل ہے.

دوم:

مشت زنى كرنا حرام ہے، اس كا تفصيلي حكم سوال نمبر ( 329 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.

ليكن اگر ايڈز كا مريض شادى نہ كر سكے اور اسے زنا ميں پڑنے كا خدشہ ہو تو اس كے ليے مشت زنى كرنى جائز ہے؛ اور اس طرح وہ دو ضرر والى اشياء اور دو برائى اور شر والى اشياء ميں سے خفيف اور ہلكى كا مرتكب ٹھرےگا.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور مرد كا اپنے اختيار كے ساتھ منى خارج كرنا اور انزال كرنا وہ اس طرح كہ مشت زنى كرے تو اكثر علماء كے نزديك ايسا كرنا حرام ہے، اور امام احمد كى ايك بلكہ ظاہر روايت يہى ہے، اور ايك روايت ميں مكروہ ہے، ليكن اگر وہ اس پر مجبور ہو جائے مثلا اسے خدشہ ہو كہ اگر مشت زنى نہ كى تو وہ زنا كا مرتكب ہو جائيگا يا مرض لاحق ہو جائيگا تو اس ميں علماء كرام كے دو مشہور قول ہيں:

اس حالت ميں سلف اور خلف ميں سے كچھ لوگوں نے اجازت دى ہے، اور كچھ نے منع كيا ہے " واللہ اعلم انتہى

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 1 / 302 ).

اور " شرح ا لمنتھى " ميں درج ہے:

" اور اگر كسى مرد يا عورت نے بغير كسى ضرورت و حاجت كے مشت زنى كى تو اس كا يہ فعل حرام ہے، اور اسے تعزير لگائى جائيگى اور سزا دى جائيگى كيونكہ يہ معصيت و نافرمانى ہے، ليكن اگر اس نے زنا يا لواطت كے خوف اور ڈر سے ايسا كيا تو اس پر كچھ نہيں، مثلا اگر كوئى شخص اپنے بدن كے خوف سے كرتا ہے تو اس پر كچھ نہيں بلكہ ايسا كرنا اولى ہے، چنانچہ مرد كے ليے اپنے ہاتھ سے مشت زنى كرنى مباح نہيں ہے، الا يہ كہ وہ نكاح كرنے كى قدرت و استطاعت نہ ركھتا ہو، كيونكہ نكاح كى قدرت و استطاعت ركھتے ہوئے اس كى كوئى ضرورت نہيں رہتى "

ديكھيں: شرح المنتھى ( 3 / 366 ).

بہر حال يہ ايك برائى ہے اس سے اجتناب كرنا چاہيے اور يہ حرام ہے، اور پھر اللہ تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور جو كوئى بھى اللہ تعالى پر بھروسہ اور توكل كرتا ہے اللہ اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے ﴾.

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ