ولى كے بغير شادى كرنے كے بعد خاوند تجديد نكاح سے انكار كرتا ہے

ميں نے چند ماہ قبل اپنے گھر والوں كے علم كے بغير شادى كر لى ( ميرے گھر والے غير مسلم ہيں ) ہمارا اتفاق تھا كہ ہمارى شادى پوشيدہ رہے گى حتى كہ ميرے گھر والے موافقت كر ليں، يہ شادى كى تقريب بہت ہلكى سے تھى، ليكن بعد ميں مجھے علم ہوا كہ يہ شادى صحيح نہيں؛ كيونكہ شادى كے وقت ميرا ولى موجود نہ تھا صرف دو گواہ موجود تھے.
جيسے ہى مجھے اس كا علم ہوا تو ميں نے اپنے خاوند كو بتايا، اب خاوند دوبارہ شادى نہيں كرنا چاہتا كيونكہ وہ محسوس كرتا ہے كہ وہ شادى كے ليے تيار نہيں، مشكل يہ ہے كہ ہم اكٹھے تھے اور اب ميں حاملہ بھى ہوں، وہ كہتا ہے كہ ہمارا يہ بچہ زنا كا ہے اور وہ اس كا ذمہ دار نہيں، اس بچے كے متعلق ميں ہى ذمہ دار ہوں، ليكن وہ بہتر اسى كو قرار ديتا ہے كہ ہم اس اپنے اور اس بچے كى وجہ سے حمل ضائع كروا ديں.
برائے مہربانى كوئى نصيحت فرمائيں، اگر ميرے گھر والوں كو علم ہو گيا تو وہ مجھے عاق كر دينگے، ميرے پاس كوئى اور جگہ نہيں جہاں ميں جاؤں، ميرا حمل اس وقت حمل كے ابتدائى ہفتوں ميں ہے

الحمد للہ:

دين اسلام نے عورت كے ليى بغير ولى كے شادى كرنا حرام كيا ہے، اور اگر ولى كے علاوہ كوئى اور اس كا عقد نكاح كرتا ہے تو اس كا نكاح فاسد ہو گا، اور كافر شخص كو مسلمان عورت پر كوئى ولايت نہيں، اگر اس عورت كے گھر والوں ميں كوئى مسلمان نہيں تو مسلمانوں كا ذمہ دار يا ان كا مفتى يا اسلامى مركز كا امام ولى كے قائم مقام ہو گا.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

رہا كافر تو مسلمان عورت پر وہ كسى بھى حالت ميں ولى نہيں بن سكتا اس پر اہل علم كا اجماع ہے.

ديكھيں: المغنى ( 7 / 356 ).

اوپر ہم نے جو كچھ بھى بيان كيا ہے اس كے دلائل اور اس ميں اہل علم كے اقوال كا تفصيلى مطالعہ كرنے كے ليے سوال نمبر (7989) اور (2127) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

چنانچہ يہ عقد نكاح غير صحيح ہے، اس كو فسخ كرنا اور خاوند سے دور رہنا واجب ہے، اور خاوند كو چاہيے كہ اگر وہ آپ سے شادى كرنا چاہتا ہے تو وہ شرعى طريقہ سے دوبارہ نكاح كرائے، اور آپ كوشش كريں كہ اس سلسلہ ميں كسى اہل علم اور خير صلاح والے شخص كو بطور واسطہ ڈاليں جو اس كو سمجھائے اور اس كى غلطى دور كرنے پر اسے مطمئن كرے، اس ميں آپ كى اور آپ كے بچے كى حفاظت ہے.

اگر وہ نصيحت قبول نہيں كرتا تو آپ كو يہى نصيحت ہے كہ آپ اس سے اعراض كريں، كيونكہ اس كى كلام وفادار مردوں كے اخلاق كے منافى ہے، پھر ا سكا يہ كہنا: وہ شادى كے ليے تيار نہيں " يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ وہ آپ سے صرف استمتاع اور كھيلنا چاہتا ہے، اور اللہ عزوجل نے جو شرعيت ميں حكم ديا ہے اس كا التزام نہيں كرنا چاہتا، اور نہ ہى وہ آپ كے متعلق مكمل ذمہ دارى كا ثبوت دينا چاہتا ہے جيسا واجب ہوتا ہے.

مزيد آپ سوال نمبر (13501) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اور اس كے ليے يہ حلال نہيں كہ وہ اس حمل كو ضائع كرنے كا مطالبہ كرے، اور اگر بچہ ميں روح پھونكى جا چكى ہے تو بھى آپ كے ليے حمل ضائع كرانا حلال نہيں، اور اگر آپ ايسا كرتى ہيں تو يہ ايك قتل ہو گا.

مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 12118 ) اور ( 13319 ) اور ( 4038 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

اور رہا بچہ تو تو اس كا نسب اپنے باپ سے صحيح ہے اور وہ زنا كا بچہ شمار نہيں ہو گا، بلكہ علماء كرام اسے نكاح شبہ سے پيدا شدہ بچہ شمار كرتے ہيں، اور نكاح شبہ سے پيدا شدہ بچے كا نسب ثابت ہوتا ہے.

ديكھيں: المغنى ( 11 / 196 ).

اے مسلمان عورت.... آپ يہ ياد ركھيں كہ بندوں كى روزى اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے ذمہ لى ہے اور اس كى كفالت كى ہے، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے ہمارے ساتھ وعدہ كيا ہے كہ جو كوئى بھى اللہ كا تقوى اختيار كرتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالى اس كے ليے مشكلات سے نكلنے كى راہ بنا دے گا.

آپ اللہ تعالى پر بھروسہ و توكل كريں اور اس كى طرف توبہ بھى كريں.. اور اس توبہ ميں يہ شامل ہے كہ آپ اس شخص سے اپنے تعلقات ختم كر ديں كيونكہ يہ نكاح باطل ہے، اس ليے كہ ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا جيسا كہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے، اور جب آپ ايسا كرينگى تو آپ اسے اللہ كا حكم سمجھ كر كريں گى كہ اس سے تعلقات منقطع كر ديں اور توبہ كريں.

اور يہ علم ركھيں كہ جس كسى نے بھى اللہ كے ليے كچھ چھوڑا اللہ تعالى اسے اس كا نعم البدل عطا كريگا، اللہ تعالى آپ كے معاملہ كو آسان فرمائے.

واللہ اعلم .

.

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ