كيا بيوى سے صحبت و جماع ستر نمازوں كے برابر ہے

صحيح مسلم كے مطابق مسلمان مرد اور اس كى بيوى كو جماع و صحبت كا اجروثواب حاصل ہوتا ہے، تو كيا يہ صحيح ہے كہ اس كا ثواب ستر نفلوں كے برابر ہوتا ہے ؟

الحمد للہ:

اول:

جب كوئى شخص اپنى بيوى سے مجامعت كرتا ہے تو اس كو اجروثواب حاصل ہوتا ہے كيونكہ اس نے حرام چھوڑ كر حلال كو اختيار كيا ہے، اور اس كى تائيد و تاكيد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى درج ذيل حديث سے بھى ہوتى ہے:

ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ كچھ صحابہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كرنے لگے اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مالدار لوگ اجروثواب اكٹھا كر گئے وہ بھى اسى طرح نماز ادا كرتے ہيں جس طرح ہم نماز ادا كرتے ہيں، اور جس طرح ہم روزے ركھتے ہيں وہ بھى روزے ركھتے ہيں اور اپنے زائد مال سے صدقہ و خيرات كرتے ہيں.

تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

كيا اللہ نے تمہارے ليے بھى ايسا نہيں بنايا جس سے تم بھى صدقہ كر سكتے ہو، بلا شبہ ہر تسبيح سبحان اللہ كہنا صدقہ ہے اور ہر تكبير اللہ اكبر كہنا صدقہ ہے، اور ہر حمد الحمد للہ كہنا صدقہ ہے، اور ہر كلمہ لا الہ الا اللہ پڑھنا صدقہ ہے، اور نيكى كا حكم دينا اور برائى سے منع كرنا صدقہ ہے، اور تم ميں سے ہر ايك كى شرمگاہ ميں صدقہ ہے.

صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كى رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم ميں كوئى ايك اپنى شہوت پورى كرتا ہے تو كيا اسے اس پر بھى اجروثواب حاصل ہوتا ہے ؟

تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اچھا تم مجھے يہ بتاؤ كہ اگر وہ اسے حرام ميں استعمال كرے تو كيا اسے گناہ ہو گا ؟

تو اسى طرح اگر وہ اسے حلال ميں استعمال كرتا ہے تو اسے اجروثواب بھى حاصل ہو گا "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1674 ).

اھل الدثور سے مراد مالدار لوگ ہيں.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

قولہ صلى اللہ عليہ وسلم: " و فى بضع احدكم صدقۃ " بضع كى باء پر پيش ہے اور اس كا اطلاق جماع و صحبت پر ہوتا ہے، اور شرمگاہ پر بھى بولا جاتا ہے.

... اس ميں دليل پائى جاتى ہے كہ اگر نيت اچھى اور سچى ہو تو مباح اشياء بھى طاعت بن جاتى ہے، چنانچہ جب انسان جماع ميں اپنى بيوى كے حق كى ادائيگى اور اس سے حسن معاشرت كا ارادہ ركھتا ہو جس كا اللہ نے حكم ديا ہے، يا اس كا ارادہ نيك و صالح اولاد كا حصول اور اپنے آپ كو حرام سے بچانا اور عفت و عصمت والا بنانا، يا اپنى بيوى كى عفت و عصمت والى بنانا اور حرام كى طرف نظر كرنے اور ديكھنے اور سوچنے يا ارادہ كرنے سے باز ركھنا ہو يہ نيك و صالح مقاصد ہيں اور اس طرح يہ عبادت بن جائيگا.

اور صحابہ كرام كا قول:

" اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم ميں سے كوئى شخص اپنى شہوت پورى كرتا ہے تو اس ميں بھى اسے اجروثواب حاصل ہو گا "

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 7 / 92 ).

دوم:

اور آپ كا يہ قول:

" اس كا ثواب ستر نوافل كے برابر ہوتا ہے "

شائد آپ بيوى كے ساتھ مجامعت كے ثواب كے متعلق سوال كر رہے ہيں، اور لگتا ہے آپ كا يہ قول اس بنا پر ہے كہ آپ نے امام نووى رحمہ اللہ كى كتاب مسلم كى شرح پڑھى ہے، اور وہ يہ كلام ہے جو ابھى ہم اوپر بيان كر آئے ہيں جہاں شيخ رحمہ اللہ نيكى كا حكم دينے اور برائى سے روكنے كے متعلق كلام كرتے ہيں كہ يہ واجب ہے، اور پھر انہوں نے سبحان اللہ اور اللہ كے ذكر كے متعلق بيان كيا ہے كہ يہ سنت ہے.

پھر وہ بيان كرتے ہيں كہ ايك فرض ستر نوافل كے برابر ہے پھر ان كا كہنا ہے تو انہوں نے اس ميں ايك حديث كو ليا ہے... اور پھر اس كلام كو ختم كرنے كے بعد كہتے ہيں:

قولہ صلى اللہ عليہ وسلم: " و فى بضع احدكم " شائد آپ يہ سمجھے ہيں كہ جس حديث كو انہوں نے ليا ہے وہ حديث ہے: و فى بضع احدكم "

اگر تو ايسا ہى تو آپ كو معلوم ہونا چاہيے كہ پہلى كلام بعد والى كلام سے عليحدہ ہے اس كا دوسرے سے تعلق نہيں امام نووى كا قول:

اس حديث سے " يعنى كوئى بھى حديث، ليكن امام نووى نے اس حديث كو ذكر نہيں كيا، پھر جب وہ فرض نفل اور ان كے درميان مراتب ميں اپنى كلام سے فارغ ہوئے تو انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى فرمان:

" و فى بضع احدكم " كى شرح كرنا شروع كى ہے تو اس طرح يہ وہم پيدا ہوا ہے.

ہمارے خيال ميں تو ايسا ہى ہوا ہے، ليكن اگر آپ يہ خيال اور ارادہ كرتے ہيں كہ ايك فرض ستر نفل كے برابر ہے تو اس ميں امام نووى كا قول آيا ہے ليكن انہوں نے اس كے متعلق كوئى حديث ذكر نہيں كى.

اوپر جو اشارہ كيا گيا ہے اس سے ہميں امام نووى رحمہ اللہ كى مراد كا پتہ چل گيا ہے اور وہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كے فائدہ ميں آ رہا ہے جو انہوں نے بيان كيا ہے.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

فائدہ:

امام نووى رحمہ اللہ نے " زيادات الروضۃ " ميں امام الحرمين سے نقل كيا ہے كہ بعض علماء كہتے ہيں كہ فرض كا ثواب نفل كے ثواب سے ستر درجہ زيادہ ہے، امام نووى كہتے ہيں انہوں نے اس ميں ايك حديث لى ہے " انتہى

اور مذكورہ حديث جسے امام نووى نے ( آخر ميں ) بيان كى ہے وہ رمضان المبارك كے متعلق سلمان كى مرفوع حديث ہے " جس نے اس ميں كسى خير كے ساتھ قرب اختيار كيا تو وہ كى طرح ہے جس نے رمضان كے علاوہ كسى اور ايام ميں فرض ادا كيا اور جس نے رمضان ميں ايك فرض ادا كيا تو وہ اس كى طرح ہے جس نے رمضان كے علاوہ ميں ستر فرض ادا كيے " انتہى

يہ حديث ضعيف ہے اسے ابن خزيمہ نے روايت كيا ہے اور اس كى صحت كے قول كو معلق ركھا ہے.

ديكھيں: التلخيص الحبير ( 3 / 118 ).

اور حافظ ابن حجر كا كا مقصد يہ ہے كہ ابن خزيمہ نے اس كے صحيح ہونے كے قول كو معلق ركھا ہے جو صحيح ابن خزيمہ ( 3 / 191 ) كو ديكھنے سے واضح ہو گا جس پر انہوں نے باب باندھتے ہوئے كہا ہے اگر صحيح ہو تو رمضان المبارك كے فضائل كے متعلق باب " اھـ

اور اس حديث ميں على بن زيد بن جدعان راوى ضعيف ہے.

واللہ اعلم .

شيخ محمد بن صالح المنجد

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ