قانون دوسرى شادى كى اجازت نہيں ديتا ليكن خاوند عورت كے والد كى بجائے بھائى كى اجازت سے دوسرى شادى كرنا چاہتا ہے!

 

 

 

ميں ايسےملك كا رہائشى ہوں جہاں ايك سے زائد شادي كرنے كى اجازت نہيں، جس كے نتيجہ ميں عرفى شادى كرنى ممنوع ہے، اور اسے كارپوريشن ميں رجسٹر كرانا ممكن نہيں، حالانكہ ولى معاشرتى طور پر اپنى ايك بيٹى كى اس طرح شادى كرنے پر تيار نہيں ہے، تو ايك شادى شدہ شخص كے ليے اس طرح كى شادى كرنے كا حكم كيا ہے وہ عورت بھى راضى ہے اور مذكورہ طريقہ ميں شادى كرنا كيسا ہو گا، ميں ديكھتا ہوں كہ اس عورت كا ايك بھائى جس كى عمر پچيس برس ہے وہ اس پر موافق ہے ليكن وہ كہتا ہے كہ يہ راز ہى رہے ؟

الحمد للہ:

اول:

ہم نہيں جانتے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے جنہيں مسلمانوں كا حكمران بنايا ہے اور انہيں مسلمان معاشرہ كى ذمہ دارى سونپى ہے وہ كس طرح اللہ اور اس كے دين كے خلاف جنگ كرنے كى جرات كرتے ہيں، اور وہ اس پر اكتفا نہيں كرتے كہ اللہ كے نازل كردہ حكم كو ترك كريں، بلكہ وہ اس ميں شريعت اسلاميہ كى مخالفت اور اس حكم كے خلاف قانون لاگو كر ديتے ہيں اور پھر اس شريعت كے خلاف اعلان جنگ كرتے ہوئے اس سے مذاق بھى كرتے ہيں، اس ميں يہ بھى شامل ہے:

لوگوں كو حلال پر عمل كرنے ميں تنگى پيدا كرنا اور انہيں حلال استعمال كرنے سے روكنا، اور حرام كو پھيلانا اور نشر كرنا اور اس پر راضى ہونا، اور اگر انسان كى كوئى برائى اور معصيت اس كے اپنے ساتھ مخصوص ہو تو اس پر اس نسبت سے بات كرنا آسان ہوتى ہے كہ يہ معصيت قانون كى قوت كے ساتھ ہے ، تو اس كے فاعل كو ثواب ہو گا اور تارك كو سزا ہو گى! اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ مسلمان حكمرانوں اور رعايا كے حالات كى اصلاح فرمائے.

اگر ايسے لوگ چند لمحات بيٹھ كر سوچيں كہ انہوں نے ايك تنگ اور چھوٹى سى اندھيرى كوٹھرى ميں جانا ہے جہاں نہ تو ان كا كوئى خادم ہو گا، اور نہ ہى وزير و مشير، اور نہ مال و دولت ہو گى اور تاج اور انواع و اقسام كے كھانا پينا: اگر يہ سوچ ليں تو انہيں علم ہو جائيگا كہ يہ معاملہ بہت ہولناك ہے اور يہ ايك حقيقت ہے مذاق نہيں.

اور اگر يہ لوگ اپنے رب اور پروردگار كى ملاقات كے متعلق سوچ ليں اور غور و فكر كريں تو ان كے ليے اپنى پورى زندگى كے متعلق نظر دوڑانا ممكن ہو سكتا ہے، اور اگر اللہ تعالى ان ميں كوئى خير و بھلائى جانتا ہوتا تو انہيں ہدايت نصيب فرما ديتا.

دوم:

سوال كرنے والے بھائى آپ كو يہ معلوم ہونا چاہيے كہ: آپ كے ليے عورت كے ولى كے بغير شادى كرنا جائز نہيں، اور يہ بھى معلوم ہونا چاہيے كہ لڑكى كے والد كے موجود ہوتے ہوئے لڑكى كے بھائى كے ليے بہن كى شادى كرنے كا حق نہيں، باپ كى ولايت اس وقت ختم ہو گى جب يہ پتہ چل جائے اور ثابت ہو جائے وہ لڑكى كو كسى سے بھى شادى كرنے سے روك رہا ہے، اور يہ بغير كسى شرعى اور معقول سبب كے ہو جو شريعت كے موافق ہو.

اور جس حالت ميں آپ نے بيان كيا ہے كہ باپ اپنى بيٹى كى شادى كرنے سے روك رہا ہے وہ ايك اچھا قدم ہے، اور شريعت اور عقل كے بھى موافق ہے، آپ كس طرح چاہتے ہيں كہ اس كى بيٹى سے آپ شادى كر ليں اور يہ شادى اس كے ملك كے كسى محكمہ كى جانب سے تصديق شدہ اور معتبر نہ كہلائے؟! اور كيا آپ كو علم ہے كہ اس كے نتيجہ ميں كيا مرتب ہو گا اگر كوئى خرابى پيدا ہو گئى تو كيا بنے گا ؟.

نكاح فارم ـ بلكہ دوسرے معاملات وغيرہ كے كاغذات كى تصديق و توثيق كرانا دين ميں كوئى نئى چيز اور بدعت نہيں، بلكہ يہ تو مصالح المرسلہ ميں شامل ہوتا ہے جو شريعت كے ساتھ موافق ہے.

اور مصلحت مرسلہ وہ مصلحت ہے جو شارح نے دى ہے: يعنى اسے مطلق ركھا ہے نہ تو اس كا اعتبار كيا ہے اور نہ ہى اسے ختم اور لغو قرار ديا ہے، اور ان مصالح كا حكم عام شرعى قواعد كى طرف پلٹتا ہے، اس ليے جو كوئى بھى معتبر مصلحت كے قواعد كے تحت داخل ہو گى وہ اس سے ملحق ہو گى، اور جو لغو مصلحت كے قواعد كے تحت ہو گى وہ اس سے محلق كى جائيگى.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ مصالح المرسلہ كى تعريف ميں كہتے ہيں:

" وہ يہ ہے كہ مجتہد شخص ديكھے كہ يہ فعل كوئى راجح منفعت كا باعث بن رہا ہے، اور شريعت ميں اس كے منافى كوئى چيز نہيں جو اسے روك رہى ہو "

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 11 / 342 - 343 ).

شادى كو رجسٹر كرانے اور اس كى توثيق ميں كئى ايك مصالح ہيں جن ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:

1 ـ بيوى كے حقوق كى حفاظت ہوتى ہے وہ اس طرح كہ اس كا باقى مانندہ مہر مؤجل جو بعد ميں دينے كا كہا جاتا ہے ثابت ہوتا ہے، اور اس ميں شروط كا ذكر ہوتا ہے، اور بيوى اپنے خاوند اور اولاد كى وراثت لے سكتى ہے.

2 ـ اس كى اولاد باپ كى طرف منسوب ہونے كا ثبوت مل سكتا ہے.

3 ـ اس كا كسى اور كے ساتھ عقد نكاح كرنا ممنوع ہو گا كيونكہ وہ پہلے ہى شادى شدہ ہے.

4 ـ خاوند كے حقوق كى حفاظت ہوتى ہے، وہ اس طرح كہ بيوى نے جو مہر ليا ہے وہ ثابت ہو گا.

ـ خاوند چار سے زائد بيوياں نہيں كر سكے گا.

اسى طرح بہت سارى كئى ايك مصلحتيں ہيں، شريعت كے ليے ممكن نہيں كہ انہيں روكے اور پيدا ہونے سے منع كرے بلكہ شادى ميں حقوق كى حفاظت اور مفاسد و خرابيوں كو روكنے كى شرط لگائى جاتى ہے.

اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" اللہ سبحانہ و تعالى نے لكھنا اور گواہى اس ليے مشروع كى ہے كہ حقوق كى حفاظت ہو سكے، اس كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:

 اے ايمان والو جب تم ايك دوسرے سے وقت مقررہ تك قرض كا لين دين كرو تو اسے لكھ ليا كرو البقرۃ ( 282 ).

اور فرمايا:

 اور تم اس پر اپنے مردوں ميں سے دو گواہ بناؤ .

اور فرمايا:

 اور جب تم خريد و فروخت كرو تو گواہ بنا ليا كرو .

اور پھر شريعت اسلاميہ نے بعض التزامات اور معاملات كو خدشہ كے پيش نظر توثيق كرانا ضرورى كيا ہے جيسا كہ نكاح ہے " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 6 / 170 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے دريافت كيا گيا:

كيا خاوند كے ليے متعين ہے كہ وہ اپنے عقد نكاح ميں كسى شخص كو متعين كرے جو بيوى كے ولى سے ايجاب كى تلقين كرائے اور خاوند كو قبول كى تلقين كرائے، يا كہ بغير كسى شخص كے خاوند ہى يہ سب كچھ كر سكتا ہے جبكہ عقد نكاح ميں شروط اور اركان پورے ہوں ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" اگر تو معاملہ ايسا ہى ہے جيسا كہ سوال ميں بيان ہوا ہے كہ آپ كى جانب سے قبول اور لڑكى كے والد كى جانب سے ايجاب گواہى كى موجودگى اور عقد نكاح ميں موجود نام كى لڑكى كى رضامندى شامل ہو تو نكاح صحيح ہے، چاہے آپ دونوں كے مابين عقد نكاح كا ذمہ كسى اور شخص نے نہيں ليا، كيونكہ نكاح صحيح ہونے كے ليے يہ شرط نہيں اور نہ ہى نكاح كى تكميل كے ليے شرط ہے كہ نكاح كوئى دوسرا شخص كرے، بلكہ حكومت نے اپنى رعايا كے ليے مقرر كيا ہے كہ نكاح وہ پڑھائے جو حكومت كى جانب سے مقرر كردہ نكاح رجسٹرار ہے تا كہ معاملہ خراب نہ ہو اور وہ لكھ ليا جائے، اور اسے كھيل نہ بنا ليا جائے اور نسب اور عزت و حقوق محفوظ ركھے جائيں، اور جھگڑے كے وقت فيصلہ كرنے ميں آسانى ہو، اور ولى الامر كى واجب نيكى ميں اطاعت ہو، اور اس ميں رعايا كے حقوق كو منظم كرنا اور ان كى مصلحت كو ثابت و پورا كرنا شامل ہے.

الشيخ ابراہيم بن محمد آل شيخ.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ اللہ بن منيع.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 105 - 106 ).

اس بنا پر لڑكى كے والد كا آپ كے ساتھ اپنى بيٹى كى شادى نہ كرنے دينا اس ليے ہے كہ حكومت نے اس كى اجازت نہيں دى، يہ ايك مقبول امر ہے، اور اس ميں شريعت كى كوئى مخالفت نہيں، اور آپ كے ليے لڑكى كے والد كى اجازت كے بغير شادى كرنا حلال نہيں، اور لڑكى كے بھائى كى ولايت باطل ہو گى كيونكہ باپ موجود ہے، اور اس طرح كيا گيا عقد نكاح فاسد ہو گا.

سوم:

عرفى شادى كى دو صورتيں ہيں:

پہلى صورت:

عورت خفيہ طور پر ولى كى اجازت كے بغير شادى كرے اور جب عرفى شادى كا نام ليا جاتا ہے تو لوگ فورى طور پر يہى سمجھتے ہيں، اگر تو ايسا ہے تو يہ عقد نكاح حرام ہے صحيح نہيں؛ كيونكہ ولى كى موافقت نكاح صحيح ہونے كے ليے شرط ہے.

دوسرى صورت:

ولى كى اجازت اور موافقت سے شادى ہو، ليكن اس كا اعلان نہ كيا جائے اور اسے مشہور نہ كيا جائے، يا اس كى سركارى محكمہ سے تصديق نہ كروائى جائے، اگر تو يہ شادى شروط اور اركان كے اعتبار سے صحيح ہو يعنى اس ميں پورى شروط اور اركان پائے جائيں تو يہ شادى صحيح ہے، ليكن اس كے نتيجہ ميں بہت سارى خرابياں مرتب ہوتى ہيں، جسے ان خرابيوں كا علم ہو جائے وہ بالجزم يقينى طور پر اس سے روكے گا اور خاص كر جب نكاح كو ادارے ميں رجسٹر نہ كرايا جائے.

اور آپ نے اپنى جس حالت كے متعلق دريافت كيا ہے كہ لڑكى كا والد اس شادى پر موافق نہيں تو اس طرح يہ شادى دو طرح سے ممنوع ہو گى:

ا ـ ولى كى عدم موافقت اور عدم اجازت كى بنا پر.

ب ـ اور اس كو سركارى محكمہ سے توثيق نہ كرنے كے اعتبار سے.

سوال نمبر ( 2127 ) كے جواب ميں آپ كو نكاح كى شروط اور اركان اور ولى كى شروط كے متعلق مختصر اور اہم نوٹ ملے گا، اور سوال نمبر ( 7989 ) كے جواب ميں نكاح صحيح ہونے كے ليے ولى كے متعلق مخصوص شرط كى تفصيل ملے گى آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.

اور سوال نمبر ( 45513 ) اور ( 45663 ) كے جوابات ميں عرفى شادى كے حكم كى تفصيل بيان ہوئى ہے آپ اس كو بھى ضرور ديكھيں.

واللہ اعلم .

 

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ