كيا اولاد والدين اور ان كى ملازمہ كے اخراجات ادا كرنے كے پابند ہيں ؟
ميرى والدہ پانچ سو ريال ماہانہ دينے كا پابند كرتى ہے، ہم پانچ بہن بھائى ہيں، اور الحمد للہ صحت و عافيت سے ہيں، ليكن بعض اوقات ہميں ان پيسوں كى خود ضرورت ہوتى ہے، ليكن والدين كى رضا كے ليے اپنے بيوى بچوں كو چھوڑ كر انہيں دينا پڑتے ہيں.
ميرے والد صاحب بھى زندہ ہيں، ان كى جائداد بھى ہے اور كرائے بھى آتے ہيں اور انہيں ماہانہ ( 3500 ) ريال تنخواہ بھى ملتى ہے، اور اس كے علاوہ كئى كام كرتے ہيں.
ميرى والدہ كہتى ہے كہ ہمارے ليے ان كى ملازمہ اور گھريلو اخراجات اور والد صاحب كا خرچ دينا لازم ہے، سوال يہ ہے كہ كيا واقعى يہ سارے اخراجات ہم پر لازم ہيں ؟
يہ بتايا جائے اس ميں واجب كيا ہے، والد صاحب كہتے ہيں كہ اسے ہمارى تنخواہ كا ايك تہائى حصہ لينے كا حق حاصل ہے، اور وہ ہميں مجبور كرنے كے ليے معاملہ عدالت ميں لے جا سكتا ہے، برائے مہربانى جناب مولانا صاحب ہميں يہ بتايا جائے كہ ہمارے حقوق كيا ہيں، اور ہمارے ذمہ والدين كے حقوق كيا ہيں ؟
الحمد للہ :
اول:
اگر والد مالدار اور غنى ہو، اور والدہ كو آپ كے والد كى جانب سے كافى خرچ ملتا ہو تو پھر اولاد كے ليے اپنے والدين پر خرچ كرنا واجب نہيں، بلكہ اولاد كے ليے اپنے والدين پر اس صورت ميں خرچ كرنا واجب ہوتا ہے جب ماں باپ فقير و تنگ دست ہوں، اور اولاد مالدار و غنى ہو.
ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اہل علم اس پر متفق ہيں كہ وہ والدين جن كى كمائى كو كوئى ذريعہ نہ ہو اور وہ تنگ دست ہوں تو پھر اولاد كے مال ميں والدين كا خرچ واجب ہوگا " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 8 / 169 ).
اولاد پر والدين كى ملازمہ كى اجرت دينا واجب نہيں؛ ليكن اگر والدين خادمہ كے محتاج ہوں، اور ان كے پاس خادمہ كو تنخواہ دينے كے ليے مال نہ ہو تو بيٹا دےگا "
دوم:
باپ اپنے بيٹے كا مال تين شروط كے ساتھ لے سكتا ہے:
پہلى شرط:
والد كو مال كى ضرورت ہو.
دوسرى شرط:
بيٹے كو كوئى نقصان اور ضرر نہ حاصل ہو.
تيسرى شرط:
باپ ايك بيٹے سے لے كر كسى دوسرے بيٹے كو نہ دے.
اس كى دليل مسند احمد اور ابن ماجہ كى درج ذيل حديث ہے:
عمرو بن شعيب اپنے باپ اور دادا سے بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كرنے لگا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرا مال بھى اور ميرى اولاد بھى، اور ميرا باپ ميرا مال حاصل كرنا چاہتا ہے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اور تيرا مال تيرے والد كا ہے، يقينا تمہارى اولاد تمہارى سب سے اچھے كمائى ہے، تو تم اپنى اولاد كى كمائى سے كھاؤ "
مسند احمد حديث نمبر ( 6678 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3530 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2292 ).
اس حديث كے كئى ايك طرق اور شاہد پائے جاتے ہيں جن كى وجہ سے يہ صحيح بن جا تى ہے.
ديكھيں: فتح البارى ( 5 / 211 ) نصب الرايۃ ( 3 / 337 ).
جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ كر عرض كرنے لگا:
ميرا مال بھى ہے، اور ميرا بيٹا بھى، اور ميرا باپ ميرا سارا مال لينا چاہتا ہے.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اور تمہارا مال تمہارے والد كا ہے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2291 ) صحيح ابن حبان ( 2 / 142 ) مسند احمد ( 6902 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يقينا تمہارى اولاد تمہارے ليے اللہ كى جانب سے ہبہ اور عطيہ ہے، وہ جسے چاہے لڑكياں ہبہ كرے، اور جسے چاہے لڑكے ہبہ كرے، تو وہ اور ان كے مال جب تم ضرورتمند ہو تو تمہارے ليے ہيں "
مستدرك الحاكم ( 2 / 284 ) سنن بيہقى ( 7 / 480 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 2564 ) ميں اسے صحيح كہا ہے.
مزيد تفصيل اور معلومات كے ليے آپ سوال نمبر ( 194298 ) اور ( 9594 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
كيا والد كى طرح ضرورت پڑنے پر ماں كو بھى مال لينے كا حق حاصل ہے ؟
اس ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" باپ كے علاوہ كسى اور كو بغير اجازت مال لينے كا حق حاصل نہيں؛ كيونكہ حديث ميں صرف باپ كے بارہ ميں ہى كہا گيا ہے كہ:
" تم اور تمہارا مال تمہارے باپ كا ہے "
اس ليے يہاں باپ كے علاوہ كسى اور كو باپ پر قياس كرنا صحيح نہيں؛ اور اس ليے بھى كہ بچپن ميں باپ كو بچے اور اس كے مال پر ولايت و پورى شفقت يقينى حق حاصل ہے، اس كا وارث ہونا كسى بھى صورت ميں ساقط نہيں ہوتا، اور ماں نہيں لےگى كيونكہ ماں كو بچے پر ولايت حاصل نہيں ہے " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 5 / 397 ) الانصاف ( 7 / 155 ) الغرار البھيۃ ( 4 / 400 ).
اور كچھ فقھاء كرام نے ماں كو بھى باپ كى مانند قرار ديا ہے.
جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:
" ماں اور باپ دونوں ہى اپنے بيٹے كا مال اجازت كے بغير لے سكتے ہيں، ليكن بيٹا اور بيٹى ماں باپ كا مال بغير اجازت نہيں لے سكتے "
المحلى ابن حزم ( 6 / 385 ) ابن حزم نے اسے صحيح كہا ہے.
اور عطاء بن ابى رباح اور امام زہرى رحمہ اللہ كا قول بھى ايسا ہى ہے.
ديكھيں: المدونۃ ( 2 / 264 ).
اس سے يہ واضح ہوا كہ جب ماں يا باپ كو بيٹے كے مال ميں سے كسى چيز كى ضرورت ہو تو ماں باپ كے ليے وہ چيز لينى جائز ہے، ليكن اس ميں سابقہ شروط كا خيال كرنا ہوگا.
اور پھر اولاد كو بھى چاہيے كہ وہ والدين كے عظيم حق اور صلہ رحمى كا خيال ركھيں اور ان سے حسن سلوك اور صلہ رحمى كرتے ہوئے انہيں كوئى چيز دينے سے بخل مت كريں بلكہ حتى الوسع انہيں دے كر راضى ركھنے كى كوشش كريں كيونكہ انہيں اس كے بدلے ميں اجر عظيم حاصل ہوگا، اور دنيا و آخرت ميں رفعت و بلندى اور مقام ملےگا، كيونكہ اولاد كے ليے سب سے زيادہ صلہ رحمى اور عزت و تكريم كا حق والدين كو حاصل ہے، جو مال اور اخراجات والدين كے ضرورت پر خرچ ہوگا اس ميں خير و بركت اور مال كى زيادتى ہى ہوگى.
ہمارى دعا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ كى نيكى و حسن سلوك اور صلہ رحمى ميں معاونت فرمائے، اور آپ كے مال و اولاد ميں بركت عطا كرے.
واللہ اعلم
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ