بيوى پر ظلم كرنے اور بچى پر خرچ نہ كرنے والى خاوند كى امانت واپس نہ كرنا

ايك آدمى نے اپنى بيوى كے پاس آٹھ سو ڈالر امانت ركھے، اور جب بيوى كو طلاق دے دى تو بيوى نے اسے سات سو ڈالر واپس كيے، اب سو ڈالر بيوى كے ذمہ ہيں، بطور علم يہ بتانا مقصود ہے كہ خاوند نے بيوى كو اس كے حقوق كى ادائيگى بھى نہيں كى، اور بلكہ بيوى كا بہت سارا مال بھى اڑا ليا، اور ماں كے پاس پرورش پانے والى بيٹى كا خرچ بھى ادا نہيں كيا، بلكہ اس كا لباس بھى اڑا ليا...
اب يہ بتائيں كہ وہ اس سو ڈالر كى رقم كا كيا كرے، كيا وہ بيٹى پر خرچ كر دے يا كہ اسے خاوند كو واپس كرنا ہونگے كيونكہ طلاق كو اس وقت دو برس ہونے كو ہيں ؟

الحمد للہ :

اگر كسى شخص كو كسى دوسرے شخص كے ذمہ كوئى حق ہو، اور اس سے وہ اپنا حق نہ لے سكے، اور اس كا مال ہاتھ لگ جائے توا كثر علماء كرام كہتے ہيں كہ حقدار شخص ہاتھ آنے والے مال ميں سے بقدر حق لے سكتا ہے.

اور اس كے جواز كى اس صورت ميں اور بھى تاكيد ہو جاتى ہے جب اس حق كا كوئى ظاہر سبب ہو مثلا بيوى اور اولاد كا نان و نفقہ.

سنت نبويہ ميں اس كى دليل درج ذيل حديث ميں ملتى ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ہند بن عتبہ رضى اللہ تعالى عنہا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ كر عرض كرنے لگى:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ابو سفيان ايك بخيل آدمى ہے، اگر ميں اس كى لاعلمى ميں كچھ مال نہ لوں تو ميرے اور اولاد كے ليے كافى مال نہيں ملتا ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم بہتر اور معروف طريقہ سے اتنا كچھ لے ليا كرو جو تمہيں اور تمہارى اولاد كے ليے كافى ہو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5364 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1714 ).

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہند رضى اللہ تعالى عنہا كے ليے خاوند كے مال سے اپنا اور اولاد كا نان و نفقہ خاوند كے علم كے بغير لينے كى اجازت عطا فرمائى.

علماء كرام كے ہاں يہ مسئلہ ہاتھ لگنے كے نام سے موسوم كيا جاتا ہے.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" مسئلہ ظفر ميں علماء نے بہت وسيع كلام كى ہے.... كچھ نے تو بالكل منع كيا ہے.... اور كچھ نے درميانہ راہ اختيار كرتے ہوئے كہا ہے:

اگر اس كا كوئى ظاہر سبب ہو مثلا زوجيت يا والدين اور اولاد اور ملك يمين جو انفاق كا موجب ہو تو پھر وہ بغير بتائے بقدر حق لے سكتا ہے.

ليكن اگر ظاہر سبب نہ ہو مثلا قرض اور فروخت كردہ چيز كى قيمت وغيرہ تو بتائے بغير لينا جائز نہيں.

اس مسئلہ ميں عدل و انصاف پر مبنى قول يہى ہے، اور سنت كے صريح دلائل بھى اس پر دلالت كرتے ہيں؛ اور اس كے قائلين بھى سعادت مند ہيں " انتہى

ديكھيں: اعلام الموقعين ( 4 / 21 ).

شيخ ابن عثمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص عمارت كا چوكيدار ہے اور عمارت كا مالك اسے تنخواہ نہيں ديتا، چوكيدار نے مالك كے تين سو ريال پائے تو لے ليے كيا اس كے ليے يہ ريال ركھنے جائز ہيں يا نہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" يہ مسئلہ اہل علم كے ہاں " مسئلہ ظفر " ہاتھ لگنے كا مسئلہ كہلاتا ہے، اور راجح قول كے مطابق جائز نہيں؛ يعنى اگر كسى انسان كا دوسرے شخص پر حق ہو اور وہ اسے اس كا حق ادا نہيں كرتا تو كيا حقدار اس شخص كے مال پر اگر قادر ہو اور اسے مل جائے تو وہ اپنے حق كے مطابق مال لے سكتا ہے يا نہيں ؟

ہم كہيں گے كہ اس كے ليے لينا جائز نہيں، ليكن اگر حق كا سبب واضح اور ظاہر ہو مثلا اگر حق نان و نفقہ تھا يعنى اگر خاوند نفقہ نہيں ديتا تو بيوى اس كے مال سے بقدر ضرورت لے سكتى ہے.

اور اسى طرح قريبى رشتہ دار بھى اپنے قريبى رشتہ دار كے مال سے بقدر ضرورت اس وقت لے سكتا ہے جب وہ اپنى ذمہ دارى پورى كرتے ہوئے خرچ ادا نہيں كرتا، اس ميں كوئى حرج نہيں.

اور اسى طرح اگر ميزبان مہمان كى مہمان نوازى نہيں كرتا تو وہ اس كے ليے بھى لينے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ اس ميں فتنہ و خرابى نہ پائى جائے، اور نہ ہى ايسا كرنا عداوت و دشمنى اور بغض و لڑائى كا سبب بنے " انتہى

ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 9 / 322 - 323 ).

اس بنا پر اگر بيوى كا كہنا حق ہو كہ خاوند اسے اس كے حقوق نہيں ديتا، اور نہ ہى اس كى بيٹى پر خرچ كرتا ہے تو پھر بيوى كے ليے يہ مال لے كر اپنى بيٹى پر خرچ كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

واللہ اعلم

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ