بيوى كا نان و نفقہ والدين كے نفقہ پر مقدم ہو گا
كيا خاوند كے مال ميں بيوى كا حق زيادہ ہے يا كہ خاوند كے والدين كا ؟
ميں نے ايك سوال پڑھا جس ميں بيان كيا گيا تھا كہ آدمى كے بيوى بچے اس كے مال كے زيادہ حقدار ہيں، اور كيا اگر آدمى كى آمدنى قليل ہو تو كيا وہ بيوى بچوں كى ضروريات پر اپنے والدين كى ضروريات كو مقدم كريگا يا بيوى بچوں كى ضروريات والدين كى ضروريات پر مقدم ہونگى ؟
الحمد للہ :
اول:
بلاشك و شبہ خاوند كے ليے بيوى بچوں كا خرچ لازم اور واجب ہے، اور اگر والدين فقراء و محتاج ہوں تو اسے والدين كا خرچ كرنے كا بھى مطالبہ كيا جائيگا، كيونكہ ان كى كوئى آمدنى نہيں ہے.
اس كى تفصيل سوال نمبر ( 10552 ) اور ( 111892 ) اور ( 6026 ) كے سوالات ميں بيان ہو چكى ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.
اور اگر آدمى ان سب پر خرچ كرنے كى استطاعت ركھتا ہو تو سب پر خرچ كرنا واجب ہوگا.
اور اگر مال كى قلت اور ماہانہ آمدنى كم ہونے كى وجہ سے وہ سب پر خرچ كرنے كى استطاعت نہيں ركھتا تو پھر بيوى بچوں كا خرچ دوسروں پر مقدم ہوگا.
قرآن مجيد ميں تو اس كى كوئى دليل نہيں ملتى كہ بيوى كا نان و نفقہ كسى دوسرے پر مقدم كيا جائے، ليكن سنت نبويہ سے اس كا ثبوت ملتا ہے.
صحيح مسلم ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اپنے آپ سے شروع كرو اور اپنى جان پر صدقہ كرو اگر كچھ باقى بچ جائے تو پھر تيرے اہل و عيال كے ليے ہے، اور اگر اہل و عيال سے بچ جائے تو پھر قريبى رشتہ داروں كا، اور اگر قريبى رشتہ داروں سے بچ جائے تو پھر ايسے ايسے تيرے سامنے اور دائيں بائيں "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 997 ).
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
صدقہ كيا كرو، تو ايك شخص نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرے پاس ايك دينار ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اسے اپنے آپ پر صدقہ كرو.
اس شخص نے كہا: ميرے پاس ايك اور دينار ہے ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اسے اپنى بيوى پر صدقہ كرو.
اس شخص نے عرض كيا: ميرے پاس ايك اور دينار بھى ہے ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اسے اپنى اولاد پر صدقہ كرو.
اس شخص نے عرض كيا: ميرے پاس ايك اور دينار ہے ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلام نے فرمايا: اسے اپنے خادم پر صدقہ كرو.
وہ شخص عرض كرنے لگا: ميرے پاس ايك اور دينار بھى ہے ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تمہيں اس كى زيادہ بصيرت ہے "
سنن ابو داود حديث نبمر ( 1691 ) اور امام نسائى نے بھى روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے ارواء الغليل حديث نمبر ( 895 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اہل و عيال پر خرچ كرنے كو صدقہ كا نام ديا ہے اس سے يہ نہيں سمجھنا چاہيے كہ يہ صرف مستحب ہے، بلكہ يہ خرچ واجب ہے.
مھلب رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بالاجماع اہل و عيال كا نان و نفقہ واجب ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اس خدشہ كى خاطر صدقہ كا نام ديا ہے كہ كہيں لوگ واجب كى ادائيگى ميں يہ خيال نہ كرنے لگيں كہ اس ميں انہيں اجروثواب نہيں ملےگا، كيونكہ لوگوں كو صدقہ و خيرات كے اجروثواب كا علم ہے، اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں يہ معلوم كرايا كہ يہ بھى ان كے ليے صدقہ كا درجہ اور ثواب ركھتا ہے، تا كہ وہ اسے اہل و عيال كى بجائے كہيں اور نہ ديں، بلكہ جب اہل و عيال سے كافى ہو اور زائد ہو جائے تو پھر وہ كہيں اور صرف كريں.
يہ چيز نفلى صدقہ كرنے كى بجائے پہلے واجب صدقہ كرنے كى ترغيب ہے، كہ واجب صدقہ كو نفلى پر مقدم كيا جائيگا "
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 623 ).
اور خطابى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب آپ اس ترتيب پر غور كريں گے تو آپ كو علم ہو گا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سب سے قريب اور اولى كو مقدم كيا ہے، اس كے بعد دوسرے نمبر والے كو ركھا ہے"
ديكھيں: عون المعبود ( 5 / 76 ).
اور امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب ايك شخص كے ليے كئى ايك محتاج اور ضرورتمند اكٹھے ہو جائيں جن ميں اس پر نان و نفقہ لازم والے بھى شامل ہوں تو وہ ديكھےگا كہ اگر اس كا مال سب كے ليے كافى ہے تو وہ سب پر خرچ كريگا، يعنى قريبى رشتہ دار اور دور كے رشتہ دار سب كا خرچ ادا كريگا.
ليكن اگر وہ مال اس كے اپنے آپ پر خرچ كرنے كے بعد ايك فرد كا نفقہ بچے تو پھر وہ بيوى كو باقى رشتہ داروں پر مقدم كريگا... كيونكہ بيوى كا نفقہ تو خاوند كے ذمہ يقينى اور تاكيد ہے، اور يہ وقت گزرنے سے بھى ساقط نہيں ہوتا، اور نہ ہى تنگ دست ہو جانے كى صورت ميں بھى ساقط ہوگا " انتہى
ديكھيں: روضۃ الطالبين ( 9 / 93 ).
مرداوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" صحيح مذہب يہى ہے كہ والدين اور دادا پردادا اور اولاد چاہے وہ جتنے بھى نيچے كى نسل ميں ہوں كا نان و نفقہ معروف طريقہ سے اپنے اور بيوى كے خرچ كے بعد زيادہ مال ہونے كى صورت ميں واجب ہے " انتہى
ديكھيں: الانصاف ( 9 / 392 ).
امام شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس پر اجماع ہو چكا ہے كہ خاوند بيوى كا نان و نفقہ واجب ہے، اور اگر اس كے بعد اس كے پاس كچھ مال بچ جائے تو پھر قريبى رشتہ دار پر خرچ كريگا " انتہى
ديكھيں: نيل الاوطار ( 6 / 381 ).
چنانچہ والدين كے نان و نفقہ پر بيوى كے نان و نفقہ كو مقدم كرنے ميں علماء كرام كا كوئى اختلاف نہيں ہے، بلكہ بيوى اور اولاد كے متعلق علماء اختلاف كرتے ہيں كہ ان ميں سے كس كو مقدم كيا جائيگا ؟
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
صحيح يہى ہے كہ وہ اپنے آپ سے شروع كرے، اور اس كے بعد بيوى اور اس كے بعد اولاد اور پھر والدين اور پھر باقى دوسرے رشتہ دار " انتہى
ديكھيں: فتح ذى الجلال و الاكرام ( 5 / 194 ).
اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر خاوند پر واجب ہے كہ وہ اپنى بيوى سے شروع كرے، اور اگر اس كے بيوى بچوں كا واجب خرچ ادا كرنے كے بعد زيادہ ہو تو پھر اس پر واجب ہے كہ وہ اپنے والدين پر خرچ كرے.
واللہ اعلم
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ