رضاعت سے وراثت ثابت نہيں ہوتى
ايك عورت فوت ہو گئى اور اس كا كوئى قريبى وارث نہيں، ليكن اس كا ايك رضاعى بيٹا ہے تو كيا وہ وراثت ميں سے كسى حصے كا حقدار ہو گا ؟
الحمد للہ:
شريعت ميں وارث بننے كے اسباب معلوم اور مقرر ہيں، جن ميں كچھ تو ايسے ہيں جن پر علماء كا اتفاق ہے وہ تين سبب ہيں:
عقد زوجيت، اور قرابت و رشتہ دارى، اور ولاء ( يعنى آزادى كى نسبت ).
اور كچھ اسباب ايسے ہيں جن ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے وہ يہ ہيں:
المعاقدہ و مولاۃ، كسى كے ہاتھ پر اسلام كى قبوليت، الالتقاط، اور جہت اسلام ( يعنى جس كا كوئى ورارث نہ ہو تو اس كا وارث بيت المال ہو گا ).
فضيلۃ الشيخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ نے يہ اسباب اپنى كتاب " التحقيقات المرضيۃ فى مباحث الفرضيۃ " ميں مفصل بيان كيے ہيں، ديكھيں: صفحہ نمبر ( 31 - 44 ).
اور ان اسباب ميں رضاعت شامل نہيں ہے.
لہذا جو كوئى فوت ہو جائے اور اس كا كوئى وارث نہ ہو تو اس كا مال بيت المال ميں جائيگا اور اس كا رضاعى بيٹا وراثت كا مستحق نہيں ہو گا.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
اگر كوئى عورت فوت ہو جائے اور اس كا مال و دولت ہو ليكن اس كے بعد اس كى وراثت كا كوئى وارث نہيں بلكہ اس كا سب سے قريبى ايك شخص ہو جسے اس نے دودھ پلايا ہو چاہے وہ مرد ہو يا عورت تو كيا وہ اس كے تركہ كا زيادہ حقدار ہے يا اس كا مال مسلمانوں كے بيت المال ميں جائيگا ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" رضاعت كا تعلق وراثت كے اسباب ميں شامل نہيں لہذا اس كا رضاعى بھائى اور رضاعى باپ وارث نہيں بن سكتا، اور نہ ہى دوسرے قرابت كے حقوق ميں سے كوئى حق مثلا نفقہ اور ولايت وغيرہ كا حق ركھتا ہے.
ليكن بلاشك اسے كچھ نہ كچھ حقوق ضرور ہونے چاہييں جن سے اس كى تكريم ہو، ليكن وراثت ميں اس كو كوئى حق نہيں ہو گا، كيونكہ وراثت كے تين سبب ہيں:
قرابت و رشتہ دارى، اور زوجيت، اور ولاء ( آزادى كى نسبت )؛ اور رضاعت وراثت كے اسباب ميں شامل نہيں.
سوال ميں اس مذكورہ عورت كى وراثت مسلمانوں كے بيت المال ميں جائيگا، اور يہ رضاعى بيٹا اس كا حقدار نہيں " انتہى
ديكھيں: فتاوى علماء البلد الحرام صفحہ نمبر ( 334 ).
واللہ اعلم.
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ