بڑى عمر كے شخص كى رضاعت سے حرمت ميں اختلاف
كيا كسى غير محرم بڑے شخص كو دودھ پلانا جائز ہے، اور يہ كس طرح جائز ہو گا حالانكہ اس سے مصافحہ كرنا اور ديكھنا حرام ہے ؟
اور ميں نے ايك حديث سنى ہے اس كا معنى كيا ہے حديث يہ ہے:
ام المومنين ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے كہا:
اللہ كى قسم ميرا دل راضى نہيں كہ مجھے وہ بچہ ديكھے جو دودھ پينے سے مستغنى ہو چكا ہے، تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كہنے لگيں، وہ كس ليے ؟
سہلہ بنت سہيل رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور عرض كيا اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كى قسم ميں ابو حذيفہ كے چہرے پر سالم كے آنے كى وجہ سے ناراضگى نہيں ديكھنا چاہتى.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تم اسے دودھ پلا دو، تو اس نے عرض كيا: وہ تو داڑھى والا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اسے دودھ پلا دو ابو حذيفہ كے چہرے سے ناراضگى ختم ہو جائيگى "
كيا يہ حالت سالم كے ليے خاص تھى، ميں نے سنا ہے كہ بعض علماء كہتے ہيں كہ اس نے ايك برتن ميں دودھ نكال كر سالم كو پلايا تھا، ليكن رضاعت كا معنى تو يہ ہے كہ پستان منہ ميں ڈال كر چوسا جائے، اس كى تائيد اس سے بھى ہوتى ہے كہ اس عورت نے اس كو عجيب جانا كہ وہ تو داڑھى والا ہے اسے كيسے دودھ پلاؤں ؟
الحمد للہ:
اول:
حرمت ثابت كرنے والى رضاعت پستان سے منہ لگا كر دودھ پينے پر موقوف نہيں، بلكہ اگر كسى برتن ميں دودھ نكال كر بچے كو پلا ديا جائے تو بھى جمہور علماء كے قول كے مطابق يہ رضاعت معتبر شمار ہوتى ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں: اور ناك كے ذريعہ دودھ پلانا اور پستان كو منہ لگائے بغير بچے كے حلق ميں دودھ ڈال دينا بھى رضاعت كى طرح ہى ہے.
السعوط: ناك كے ذريعہ خوراك دينا، اور الوجور: حلق ميں دودھ ڈالنے كو كہتے ہيں.
اور ان دونوں طريقوں سے حرمت ثابت ہونے كى روايت ميں اختلاف ہے: دونوں روايتوں ميں صحيح ترين يہى ہے كہ اس سے بھى اسى طرح حرمت ثابت ہو جاتى ہے جس طرح رضاعت سے ثابت ہوتى ہے.
شعبى اور ثورى اور اصحاب الرائے كا يہى قول ہے، اور حلق ميں ڈالنے كے متعلق امام مالك بھى يہى كہتے ہيں.
اور دوسرى روايت يہ ہے كہ: اس سے حرمت ثابت نہيں ہوتى، ابو بكر نے يہى اختيار كيا ہے، اور داود كا يہى مسلك ہے، اور عطاء خراسانى ناك كے ذريعہ دودھ كى خوراك لينے كے متعلق كہتے ہيں يہ رضاعت نہيں، بلكہ اللہ تعالى اور اس كے رسول نے رضاعت سے حرمت ثابت كى ہے.
اس كى حرمت كى دليل عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كى يہ روايت ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" رضاعت وہى ہے جس سے ہڈى پيدا ہو اور گوشت بنے "
اسے ابو داود نے روايت كيا ہے.
اور اس ليے بھى كہ يہ اس طريقہ سے بھى دودھ وہى پہنچتا ہے جہاں رضاعت كے ليے پہنچتا ہے، اور اس طرح خوراك لينے سے بھى گوشت بنتا اور ہڈى بنتى ہے جس طرح پستان سے رضاعت ميں پيدا ہوتى ہے، اس ليے اسے حرمت ميں بھى برابر ہونى چاہيے " انتہى بتصرف
ديكھيں: المغنى ( 8 / 139 ).
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب دودھ ايك ہى بار برتن ميں نكال ليا جائے يا پھر كئى بار نكالا جائے اور پھر اسے پانچ اوقات ميں بچے كو پلايا جائے تو يہ پانچ رضاعت ہونگى، اور اگر ايك ہى وقت ميں پلا ديا جائے تو يہ ايك شمار ہو گى، كيونكہ بچے كے پينے كا اعتبار ہو گا، اور اسى سے حرمت ثابت ہو گى، اس ليے اس كا متفرق اور اجتماع كے فرق كا اعتبار كريں " انتہى
ديكھيں: الكافى ( 5 / 65 ).
دوم:
جمہور علماء و فقھاء كے قول كے مطابق بڑے آدمى كو دودھ پلانے سے رضاعت كى حرمت ثابت نہيں ہوتى، بلكہ معتبر رضاعت دو برس كى عمر تك ہوتى ہے.
ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہى رضاعت حرمت پيدا كرتى ہے جس سے انتڑياں بھريں اور دودھ چھڑانے كى عمر ميں سے قبل ہو"
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1072 ) اور سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1936 ).
حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان: " في الثدى " كا معنى رضاعت كى مدت ہے.
امام ترمذى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ حديث حسن صحيح ہے، اور اكثر اہل علم اور صحابہ كرام رضى اللہ عنہم وغيرہ كا اسى پر عمل ہے، كہ رضاعت وہى حرمت ثابت كرتى ہے جو دودھ چھڑانے كى عمر دو برس سے قبل ہو، اور مكمل دو برس كے بعد رضاعت كچھ حرام نہيں كرتى " علامہ البانى رحمہ اللہ نے الارواء الغليل حديث نمبر ( 2150 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے اھـ
اور صحيح بخارى و مسلم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميرے ہاں تشريف لائے تو ميرے پاس ايك شخص بيٹھا ہوا تھا آپ نے فرمايا:
عائشہ يہ كون ہے ؟
تو ميں نے عرض كيا: يہ ميرا رضاعى بھائى ہے، آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اے عائشہ ديكھو كہ تمہارے بھائى كون ہيں، كيونكہ رضاعت بھوك سے ہوتى ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2453 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1455 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح البارى ميں لكھتے ہيں:
" معنى يہ ہے كہ تم ذرا غور كرو كہ ايسا ہوا ہے آيا يہ رضاعت صحيح ہے اور اس ميں رضاعت كى شروط پائى جاتى ہيں، كہ يہ رضاعت مدت ميں ہو اور اس كى مقدار بھى پورى ہو كيونكہ جس رضاعت سے حكم ثابت ہوتا ہے وہى رضاعت ہے جس ميں شرطيں مكمل ہوں.
المھلب رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كا معنى يہ ہے كہ: عورتيں ديكھيں كہ اس اخوت يعنى بھائى ہونے كا سبب كيا ہے، كيونكہ رضاعت كى حرمت تو صغر سنى ميں ہوتى ہے حتى كہ رضاعت بھوك كو مٹا دے .
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:
" رضاعت تو بھوك سے ہوتى ہے "
اس ميں علت بيان ہوئى ہے كہ جو غور و فكر اور تدبر كا باعث ہے، كيونكہ رضاعت نسب ثابت كرتى ہے اور دودھ پينے والے بچے كو محرم بناتى ہے اور يہ قول: " المجاعۃ " يعنى جس رضاعت سے حرمت ثابت ہوتى ہے اور عورت كے ساتھ خلوت حلال كرتى ہے وہ اس حالت ميں ہے كہ جب بچے كى بھوك دودھ سے ختم ہوتى ہو.
كيونكہ كا معدہ كمزور ہونے كى بنا اس كے ليے صرف دودھ ہى كافى ہوتا ہے، اور اس دودھ سے اس كا جسم نشو و نما پاتا ہے تو اس طرح وہ دودھ پلانے والى عورت كا ايك جزء بن جاتا ہے، اس طرح وہ حرمت ميں اس كى اولاد كے ساتھ شريك ہو جاتا ہے.
گويا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ فرمايا ہے:
" معتبر رضاعت وہ ہے جو بھوك مٹائے، يا بھوك سے خوراك پورى كرتى ہو " انتہى
صحابہ كرام رضى اللہ عنہم سے آثار ملتے ہيں كہ بڑے شخص كى رضاعت مؤثر نہيں ہوتى ان ميں درج ذيل روايات شامل ہيں:
1 ـ ابو عطيہ الوادعى بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كے پاس آيا اور عرض كى:
ميرے ساتھ ميرى بيوى تھى تو اس كا دودھ پستان ميں رك گيا ميں اسے نكالنے كے ليے منہ سے چوستا اور باہر پھينك ديتا، ميں ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس گيا اور اس كے متعلق دريافت كيا تو انہوں نے فرمايا:
وہ تم پر حرام ہو گئى ہے.
راوى بيان كرتے ہيں كہ ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ اٹھے اور ہم بھى ان كے ساتھ اٹھ كھڑے ہوئے اور ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس گئے اور كہنے لگے:
آپ نے اسے كيا فتوى ديا ہے ؟
تو انہوں نے جو فتوى ديا تھا وہ ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كو بتايا تو ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ اس آدمى كا ہاتھ پكڑ كر كہنے لگے:
كيا آپ اس كو دودھ پينے والا بچہ سمجھتے ہيں ؟
بلكہ رضاعت تو وہ ہے جس سے گوشت بنے اور خون پيدا ہو ( يعنى جسم نشو و نما پائے )
تو ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: جب تمہارے اندر يہ عالم موجود ہيں تو پھر مجھ سے كوئى سوال مت دريافت كيا كرو "
اسے عبد الرزاق نے مصنف عبد الرزاق حديث نمبر ( 13895 ) ( 7 / 463 ) ميں روايت كيا ہے.
اور سنن ابو داود ميں ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے يہ الفاظ مروى ہيں:
" رضاعت وہ ہے جو ہڈى مضبوط كرے اور گوشت بنائے تو ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا: جب تم ميں يہ عالم موجود ہوں تو مجھ سے سوال نہ كيا كرو "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2059 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
2 ـ امام مالك رحمہ اللہ نے موطا ميں نافع سے روايت كيا ہے كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے فرمايا:
" رضاعت وہى ہے جس نے بچپن ميں رضاعت كى اور بڑے كى رضاعت نہيں ہے "
موطا امام مالك ( 2 / 603 ).
3 ـ موطا ميں ہى عبد اللہ بن دينار رحمہ اللہ سے مروى ہے كہ:
ايك شخص عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس آيا اور ميں بھى دار القضاء كے پاس ان كے ساتھ تھا، وہ شخص بڑے آدمى كى رضاعت كے متعلق دريافت كرنے لگا تو عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے فرمايا:
" ايك شخص عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس آيا اور عرض كى: ميرى ايك لونڈى ہے اور ميں اس سے وطئ كرتا ہوں تو ميرى بيوى نے اسے دودھ پلا ديا، اور ميں جب اس لونڈى كے پاس گيا تو وہ كہنے لگى مجھ سے دور ہى رہو، اللہ كى قسم مجھے اس نے دودھ پلا ديا ہے.
تو عمر رضى اللہ عنہ كہنے لگے:
اپنى بيوى كو مارو، اور اپنى لونڈى كے پاس جاؤ، كيونكہ رضاعت تو بچے كى ہوتى ہے "
اس كى سند صحيح ہے.
اسى ليے ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" رضاعت كى بنا پر حرمت ميں شرط يہ ہے كہ يہ رضاعت دو برس كى عمر ميں ہو، اكثر اہل علم كا قول يہى ہے، اور عمر على ابن عمر اور ابن مسعود ابن عباس اور ابو ہريرہ اور عائشہ رضى اللہ عنہا كے علاوہ باقى ازواج مطہرات سے بھى اسى طرح مروى ہے.
شعبى اور ابن شبرمہ اور اوزاعى، شافعى اور اسحاق، ابو يوسف اور محمد اور ابو ثور بھى يہى كہتے ہيں، اور امام مالك سے بھى ايك روايت يہى ہے، اور امام مالك سے مروى ہے كہ اگر ايك ماہ زائد ہو جائے تو جائز ہے، اور ايك روايت ميں دو ماہ كا بھى ذكر ہے.
اور امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: اڑھائى برس كى عمر ميں رضاعت سے حرمت ثابت ہو جاتى ہے كيونكہ اللہ كا فرمان ہے:
اس كا حمل اور دودھ چھڑانے كى عمر اڑھائى سال ہے .
يہاں پيٹ كا حمل مراد نہيں؛ كيونكہ يہ دو برس ہونگے بلكہ حمل فصال مراد ہے.
اور زفر كہتے ہيں رضاعت كى مدت تين برس ہے.
اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى رائے ميں بڑے شخص كى رضاعت بھى حرمت كا باعث ہے، اور عطاء اور ليث اور داود سے بھى يہى مروى ہے " انتہى
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 8 / 142 ).
اس ميں ايك اور بھى قول ہے كہ: بڑى عمر ميں رضاعت اثرانداز ہو گى، عائشہ حفصہ رضى اللہ عنہما اور على رضى اللہ عنہ سے مروى ہے ليكن اس كى سند ضعيف ہے، طبرانى نے اسے عبد اللہ بن زبير رضى اللہ عنہ اور قاسم بن محمد و عروہ كى طرف منسوب كيا ہے.
اور عطا ليث بن سعد اور ابن حزم كا يہى قول ہے، اور داود ظاہرى كى طرف منسوب كيا جاتا ہے، اور مالكى حضرات ميں سے ابن المواز اس كى طرف مائل ہيں "
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 148 ).
سوم:
بڑى عمر ميں رضاعت مؤثر ہونے كے قائلين نے مسلم شريف كى درج ذيل حديث سے استدلال كيا ہے:
عائشہ رضى اللہ عنہا بيان كرتى ہيں كہ ابو حذيفہ رضى اللہ عنہ كا غلام سالم ان كے ساتھ ان كے گھر ميں رہتا تھا، تو سہلہ بنت سہيل رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور عرض كيا اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم سالم جوان ہو چكا ہے، اور جس طرح مرد سمجھتا ہے سالم بھى وہى كچھ سمجھنے لگا ہے، اور وہ ہمارے پاس آتا جاتا ہے، ميرے خيال ميں ابو حذيفہ اس كے آنے سے ناراض ہوتے ہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تم اسے دودھ پلا دو تم اس پر حرام ہو جاؤگى، اور ابو حذيفہ كے دل ميں جو كچھ ہے وہ بھى ختم ہو جائيگا، تو اس نے دوبارہ آ كر بتايا كہ اس نے اسے دودھ پلايا تو ابو حذيفہ كے چہرے سے ناراضگى ختم ہو گئى "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1453 ).
اور مسلم شريف كى ايك روايت ميں ہے:
" وہ كہنے لگے: اسے تو داڑھى ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اسے دودھ پلا دو ابو حذيفہ كى ناراضگى ختم ہو جائيگى "
حذيفہ رضى اللہ عنہ نے منہ بولا بيٹا بنانے كى حرمت نازل ہونے سے قبل سالم كو منہ بولا بيٹا بنا ركھا تھا.
حديث ميں يہ بيان نہيں كيا گيا كہ سالم نے دودھ كس طرح پيا اور اسے دودھ كس طرح پلايا گيا، امام نووى رحمہ اللہ مسلم كى شرح ميں رقمطراز ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: " تم اسے دودھ پلا دو "
قاضى كہتے ہيں: لگتا ہے كہ اس نے دودھ نكال كر سالم كو پلايا تھا، اور سالم نے سہلہ كے پستان كو نہيں چھويا اور نہ ہى اس كى جسم كو.
قاضى كا يہ قول بہتر اور اچھا معلوم ہوتا ہے، اور يہ بھى احتمال ہے كہ ضرورت و حاجت كى بنا پر اسے چھونے كى بھى اجازت مل گئى ہو جس طرح بڑى عمر كا ہونے كے باوجود رضاعت كى اجازت ملى " واللہ اعلم انتہى
عائشہ اور حفصہ رضى اللہ تعالى عنہما نے اسى حديث كو ليا اور وہ اسے سالم كے ليے خاص نہيں سمجھتيں، ليكن باقى ازواج مطہرات اس كا انكار كرتى ہيں.
مسلم شريف ميں ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ وہ كہا كرتى تھيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سارى بيويوں نے اس رضاعت والے شخص كو اپنے پاس آنے سے انكار كر ديا، اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو كہنے لگيں:
اللہ كى قسم ہمارے خيال ميں تو يہ سالم كے ليے خاص رخصت تھى جو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے سالم كو دى تھى، لہذا اس رضاعت سے ہمارے پاس كوئى نہيں آ سكتا"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1454 ).
ابو داود رحمہ اللہ نے ام المومنين عائشہ اور ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ ابو حذيفہ بن عتبہ بن ربعيہ بن عبد شمس نے سالم كو اپنا منہ بيٹا بنايا ہوا تھا اور اپنے بھائى كى بيٹى يعنى بھتيجى ہند بنت وليد بن عتبہ بن ربعيہ سے شادى كى اور يہ ايك انصارى عورت كا غلام تھا، جس طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے زيد كو اپنا منہ بولا بيٹا بنايا تھا، دور جاہليت ميں اگر كوئى شخص منہ بولا بيٹا بناتا تو لوگ اسے اس كى ولديت ديتے اور اسے اس كى طرف منسوب كر ديتے اور اس كى وراثت كا بھى حقدار ٹھرتا، حتى كہ اللہ عزوجل نے اس كے متعلق حكم نازل كر ديا:
﴿ لے پالكوں كو ان كے ( حقيقى ) باپوں كى طرف نسبت كر كے بلاؤ اللہ كے نزديك پورا انصاف يہى ہے، پھر اگر تمہيں ان كے ( حقيقى ) باپوں كا علم ہى نہ ہو تو وہ تمہارے دينى بھائى اور دوست ہيں ﴾الاحزاب ( 5 ).
تو انہيں ان كے حقيقى باپوں كى طرف لوٹا دو، اور جس كے باپ كا علم نہيں تو وہ اس كا دينى بھائى اور دوست ہے.
چنانچہ سھلۃ بن سھيل بن عمرو قريشى عامرى جو كہ ابو حذيفہ رضى اللہ عنہ كى بيوى تھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: ہم سالم كو اپنا بيٹا سمجھتے رہے ہيں، اور وہ ميرے اور ابو حذيفہ كے ساتھ ايك ہى گھر ميں رہتا ہے، اور مجھے ايك ہى كپڑے ميں ديكھتا ہے، اور اللہ عزوجل نے ان كے متعلق وہ حكم اتارا ہے جو آپ كو بھى علم ہے، لہذا اس كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا: اسے دودھ پلا دو "
تو سھلہ نے اسے پانچ رضاعت دودھ پلا ديا اور اس طرح وہ اس كا رضاعى بيٹا بن گيا، اسى بنا پر عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا اپنى بھانجيوں اور بھتيجيوں كو حكم ديا كرتى تھى كہ جنہيں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا ديكھنا چاہتى اور اسے اپنے پاس آنے كى اجازت دينا چاہتيں تو وہ انہيں دودھ پلا ديں چاہے وہ بڑى عمر كا ہى ہوتا، اسے پانچ رضاعت دودھ پلاتيں اور پھر وہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس جاتا تھا، ليكن ام سلمہ اور باقى سب ازواج مطہرات نے اس رضاعت سے اپنے پاس آنے كى اجازت دينے سے انكار كر ديا، حتى كہ وہ بچپن ميں دودھ پيے تو پھر اجازت ديتى، اور وہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو كہا كرتى تھيں: ہميں نہيں معلوم ہو سكتا ہے يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب سے صرف سالم كے ليے خصوصى اجازت تھى "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2061 ) يہ حديث صحيح ہے علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
سالم كے واقعہ والى حديث كا جمہور يہ جواب ديتے ہيں كہ: يہ سالم كے ساتھ خاص ہے، جيسا كہ باقى ازواج مطہرات كا قول ہے، يا پھر يہ منسوخ ہے.
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے ان دونوں اقوال كو جمع كرتے ہوئے كہا ہے كہ: بڑى عمر ميں رضاعت اثرانداز اور معتبر نہيں ہوتى، ليكن جب اس كى ضرورت و حاجت ہو تو پھر اثرانداز ہو گى.
الصنعانى رحمہ اللہ " سبل السلام " ميں لكھتے ہيں:
" سہلہ اور اس كے معارض دوسرى حديث ميں سب سے بہتر اور احسن جمع وہى ہے جو ابن تيميہ كى كلام ہے ان كا كہنا ہے:
بچپن كى رضاعت ہى معتبر شمار ہو گى ليكن اگر اس كى ضرورت و حاجت ہو مثلا بڑے شخص كو كسى عورت كے پاس آنے كے بغير كوئى چارہ نہ ہو اور عورت كا اس سے پردہ كرنا مشكل اور مشقت كا باعث ہو جيسا كہ ابو حذيفہ رضى اللہ عنہ كى بيوى كے ساتھ سالم كا مسئلہ تھا، تو اس طرح كے بڑے شخص كو ضرورت و حاجت كى بنا پر دودھ پلايا جائے تو رضاعت مؤثر ہو گى، ليكن اس كے بغير بجپن ميں رضاعت ضرورى ہے انتہى.
كيونكہ دونوں حديثوں كے مابين جمع بہتر ہے، اور ظاہرى طور پر خاص ہونے اور نہ ہى منسوخ ہونے كى وجہ سے بغير كسى مخالفت كے اس حديث پر عمل كرنا بہتر ہے " انتہى
ديكھيں: سبل السلام ( 2 / 313 ).
اور ابن قيم رحمہ اللہ بھى اسى جمع كى طرف گئے ہيں وہ كہتے ہيں:
" اسے منسوخ كہنے اور كسى معين شخص كے ساتھ مخصوص قرار دينے سے يہ بہتر ہے، اور دونوں اعتبار سے سب احاديث پر عمل كرنے كے زيادہ قريب ہے، اور شرعى قواعد و اصول بھى اس كے شاہد ہيں، اللہ ہى توفيق دينے والا ہے " انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 593 ).
چہارم:
معاصرين اہل علم كا فتوى يہى ہے كہ بڑے شخص كى رضاعت كا كوئى فائدہ نہيں، شيخ ابن باز رحمہ اللہ اور مستقل فتوى كميٹى كا بھى يہى فتوى ہے كہ يہ سالم كے ساتھ مخصوص تھا.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 21 / 41 - 102 ) اور مجموع فتاوى ابن باز ( 22 / 264 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا اختيار يہ ہے كہ يہ حديث سالم كے ساتھ خاص نہيں، بلكہ ہر اس شخص پر منطبق ہو گى جس كى حالت سالم جيسى ہو، اور اب ايسا ممكن نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے منہ بولا بيٹا بنانا حرام قرار دے ديا ہے، تو اس طرح اب يہ قول بھى جمہور كے قول سے متفق ہو جاتا ہے كہ اب بڑے شخص كى رضاعت سے حرمت ثابت نہيں ہو گى.
شيخ رحمہ اللہ " الشرح الممتع " ميں كہتے ہيں:
" اور ميرے نزديك: بڑے شخص كى رضاعت مطلقا مؤثر نہيں، ليكن اگر ہم كوئى ايسى حالت ديكھيں ہر اعتبار سے ابو حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حالت جيسى ہو، ليكن اب اس وقت يہ ممكن نہيں كيونكہ منہ بولا بيٹا بنانا باطل كر ديا گيا ہے..
خلاصہ يہ ہوا كہ:
منہ بولا بيٹا بنانے كى حرمت كے بعد ہم كہتے ہيں: بڑے شخص كى رضاعت اثرانداز نہيں ہو گى، بلكہ رضاعت كے ليے دو برس كى عمر ہونى ضرورى ہے، يا پھر دودھ چھڑانے سے قبل ہو اور يہى راجح ہے " انتہى مختصرا
ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 435 - 436 ).
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ