خاوند كو زنا كرتے ہوئے ديكھا تو اسے دھمكى دى كہ اگر اس نے طلاق نہ دى تو وہ اسے رسوا كر دے گى

ميں ايك عورت كے ساتھ حالت زنا ميں تھا كہ ميرى بيوى آ گئى اور اس نے مجھے دھمكى دى كہ اگر ميں نے اسے طلاق نہ دى تو وہ مجھے رسوا كر ديگى تو كيا يہ طلاق واقع ہو جائيگى ؟

الحمد للہ:

اول:

زنا كبيرہ گناہ ہے جو زانى سے ايمان كا نام بھى سلب كر ليتا ہے، اور اسے عذاب و ذلت و رسوائى حاصل ہوتى ہے، الا يہ كہ اگر وہ اس سے توبہ كر لے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اور تم زنا كے قريب بھى مت جاؤ كيونكہ يہ بہت بڑى فحاشى اور برا راہ ہے }الاسراء ( 32 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب زانى زنا كرتا ہے تو وہ مومن نہيں ہوتا، اور جب شراب نوشى كرتا ہے تو وہ مومن نہيں ہوتا، اور جب چورى كرتا ہے تو چورى كرتے وقت تو مومن نہيں ہوتا، اور جب مال چھينتا ہے تو لوگ اس كى طرف اپنى نظريں اٹھاتے ہيں تو وہ مومن نہيں ہوتا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2475 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 57 ).

اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب آدمى زنا كرتا ہے تو اس سے ايمان نكل كر سايہ كى مانند ہو جاتا ہے، اور جب وہ زنا ختم كرتا ہے تو ايمان اس ميں لوٹ آتا ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4690 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 2625 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس خواب ميں دو فرشتے آئے اور انہيں لےگئے آپ نے زانيوں كو ديكھا تو ان كى سزا بيان كرتے ہوئے فرمايا:

" .... وہ دونوں كہنے لگے: چليں تو ہم ايك تنور جيسى عمار كے پاس گئے اس كا اوپر والا حصہ تنگ تھا اور نچلا حصہ كھلا اور وسيع اس كے نيچے آگ جلائى جا رہى تھى، جب وہ قريب ہوتى تو وہ بلند ہو جائے حتى كہ اس سے نكلنے كے قريب ہوتے تو وہ آگ ٹھنڈى پڑ جاتى اور جب ٹھنڈى پڑ جاتى تو وہ اس ميں واپس چلے جاتے، اور اس ميں مرد و عورت سب ننگے تھے ميں نے دريافت كيا يہ كون لوگ ہيں ؟

تو انہوں نے كہا چليں، چنانچہ ہم آگے چل پڑے "

اس حديث ميں بيان ہوا ہے كہ: " ميں نے سوراخ ميں جو لوگ ديكھتے تھے وہ زانى تھے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1320 ).

اس جرم كى قباحت كى بنا پر اللہ سبحانہ و تعالى نے اس فعل كا ارتكاب كرنے والے كى سزا يہ مقرر كى ہے كہ اگر وہ شادى شدہ ہو تو اسے رجم كيا جائے يعنى پتھر مار مار كر ہلاك كر ديا جائے، اور اگر غير شادى شدہ ہو تو اسے ايك سو كوڑے مارے جائيں.

اللہ سبحانہ و تعالى نے كنوارے زانى كى سزا بيان كرتے ہوئے فرمايا ہے:

{ زانى مرد اور زانى عورت دونوں ميں سے ہر ايك كو سو كوڑے مارو، اور ان كے متعلق تمہيں اللہ كے دين ميں كوئى نرمى نہيں كرنى چاہيے، اگر تم اللہ اور آخرت كے دن پر ايمان ركھتے ہو، اور ان كى سزا كے وقت مومنوں ميں سے ايك گروہ بھى موجود ہو }النور ( 2 ).

رہا شادى شدہ زانى كى سزا تو اس كى حد موت تك رجم ہے جيسا كہ صحيح مسلم كى درج ذيل حديث ميں وارد ہے:

عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مجھ سے لے لو، مجھ سے لے لو، اللہ سبحانہ و تعالى نے ان ( عورتوں ) كے ليے راہ نكال دى ہے، كنوارہ كنوارى كے ساتھ ( زنا كرے ) تو ايك سو كوڑے اور ايك برس جلاوطنى، اور شادى شادى شدہ شادى شدہ سے ( زنا كرے ) تو ايك سو كوڑے اور رجم ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1690 ).

اس ليے آپ كو چاہيے كہ جتنى جلدى ہو سكے اس فعل سے توبہ و استغفار كريں اور اس پر نادم ہو كر آئندہ ايسا نہ كرنے كا پختہ عزم كريں، اور اس كے ساتھ ساتھ نماز روزہ اور صدقہ و خيرات جيسے اعمال صالحہ كثرت سے كريں اميد ہے اللہ تعالى آپ كو معاف فرمائيگا.

دوم:

جب آدمى كو طلاق دينے پر مجبور كر ديا جائے كہ اگر طلاق نہ دے تو اس كے مال يا بدن كو اذيت و ضرر ہو يا پھر كسى ايسے شخص كى جانب سے ايسا كرنے كى دھمكى دى جائے جو ايسا كرنے پر قادر ہو اور ظن غالب ہو كہ وہ جو دھمكى دے رہا ہے اس پر عمل بھى كريگا، تو اس صورت ميں طلاق واقع نہيں ہوگى.

زاد المستقنع ميں درج ہے:

" جس پر ظلم و تكليف اور اذيت كے ساتھ يا پھر اس كى اولاد كو اذيت دے كر مجبور كر ديا جائے، يا مال لے جو اسے ضرر ديتا ہو يا كسى شخص نے اسے دھمكى دى اور ظن غالب ہو كہ وہ دھمكى پر عمل بھى كريگا تو اس كے كہنے سے طلاق دينے پر طلاق واقع نہيں ہو گى "

اور ذليل و رسوا كرنے كى دھمكى ايسى دھمكى ہے جس سے انسان كو بہت زيادہ اذيت و نقصان پہنچ سكتا ہے، اور بعض اوقات تو يہ اسے زدكوب كرنے اور اسے قيد كرنے يا اس كا مال لينے سے بھى زيادہ نقصاندہ ہوتى ہے.

اس بنا پر اگر آپ كا غالب گمان يہ تھا كہ آپ كى بيوى نے جو دھمكى دى وہ اس پر عمل بھى كريگى اور آپ كو ذليل و رسوا كر ديگى اور آپ طلاق كے علاوہ اس كو كوئى اور فديہ نہيں دے سكتے تو آپ نے اسے طلاق دے دى، تو يہ طلاق واقع نہيں ہوئى؛ كيونكہ يہ طلاق جبر كر كے دلوائى گئى ہے.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" صحابہ كرام كا فتوى ہے كہ مكرہ يعنى مجبور كيے گئے شخص كى طلاق اور اس كا اقرار واقع نہيں ہوگا.

صحيح طور پر ثابت ہے كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے ايك شخص نے پہاڑ سے شہد اتارنے كے ليے رسى لٹكائى تو اس كى بيوى آئى اور كہنے لگى مجھے طلاق دو وگرنہ ميں يہ رسى كاٹ دوں گى، تو اس شخص نے بيوى كو اللہ كا واسطہ ديا ليكن وہ نہ مانى اور انكار كر ديا تو اس نے اسے طلاق دے دى.

تو وہ شخص عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس آيا اور يہ قصہ بيان كيا تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اسے كہا:د

جاؤ اپنى بيوى كے پاس چلے جاؤ كيونكہ يہ طلاق نہيں "

على اور ابن عمر اور ابن زبير رضى اللہ تعالى عنہم سے بھى طلاق واقع نہ ہونا مروى ہے. انتہى

ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 208 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" امام احمد ابو الحارث كى روايت ميں كہتے ہيں: جب مكرہ يعنى جس پر جبر كيا گيا ہو شخص طلاق دے دے تو اسے طلاق لازم نہيں ہوگى، جب اس كے ساتھ وہى كچھ كيا گيا ہو جو ثابت بن احنف كے ساتھ كيا گيا تو وہ مكرہ ہے، كيونكہ ثابت كى ٹانگيں اتنى دبائيں گئيں كہ اس نے طلاق دے دى، تو وہ ابن عمر اور ابن زبير كے پاس آئے تو انہوں نے اسے كچھ شمار نہيں كيا.

اور اللہ تعالى نے بھى ايسا ہى كہا ہے:

{ مگر وہ جس پر جبر كيا گيا ہو اور اس كا دل ايمان پر مطئمن ہو }النحل ( 106 ).

اس آيت سے امام شافعى رحمہ اللہ نے استدلال كيا ہے كہ مكرہ كى طلاق واقع نہيں ہوتى.

اور سنن ابن ماجہ ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميرى امت سے بھول چوك اورخطا و نسيان اور جس پر انہيں مجبور كر ديا گيا ہو معاف كر ديا گيا ہے " انتہى

ديكھيں: اعلام الموقعين ( 4 / 51 ).

سوم:

عورت كے ليے اس طرح كے سبب كے باعث طلاق طلب كرنا جائز ہے، اور وہ حد سے تجاوز كرنے والى شمار نہيں ہو گى اس كے اصرار كى حالت ميں اسے طلاق دے دينى چاہيے اور خلع كى طرف نہيں جانا چاہيے، كيونكہ آپ نے جو كچھ كيا ہے وہ بہت بڑا كام ہے، اس كا بيوى پر اثر كم نہيں ہوتا "

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ سب كے حالات كى اصلاح فرمائے.

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ