بيوى كے ليے طلاق كى قسم اٹھائى كہ وہ پڑوسن كے ہاں نہ جائے ليكن بعد ميں جانے كى اجازت دے دى

 

ميں نے غصہ كى حالت ميں بيوى پر طلاق كى قسم اٹھائى كہ وہ پڑوسيوں كے ہاں مت جائے اور يہ كلمات ادا كيے: " اگر تم پڑوسيوں كے ہاں گئى مجھ پر تين طلاق، تمہيں طلاق ہو جائيگى " اور بالفعل بيوى ان كے ہاں نہ گئى، ليكن ايك دن پروسن كا بچہ آ كر كہنے لگا كہ اس كى ماں بيمار ہے تو ميں نے اسے عيادت كے ليے جانے كى اجازت دے دى، اس حالت ميں مجھ پر كيا لازم آتا ہے، اسى طرح مجھے يہ بھى بتائيں كہ كيا ميرى بيوى كو طلاق ہوئى ہے يا نہيں ؟

الحمد للہ:

اگر تو اس طلاق سے بيوى كو روكنا مقصود تھا اور اس كے جانے اور نكلنے كى حالت ميں طلاق دينا مقصود نہ تھا، سائل نے اگر اس سے بيوى كو پڑوسيوں كے ہاں جانے سے روكنا مراد ليا تھا اور يہ مقصد نہ تھا كہ اگر وہ جاتى ہے تو طلاق واقع ہو جائيگى ليكن صرف اسے خوفزدہ كرنا چاہتا تھا تو اس ميں قسم كا كفارہ لازم آتا ہے، اس ليے اگر وہ بيمار كى عيادت كے ليے جاتى ہے چاہے آپ كى اجازت سے ہى گئى تو آپ پر قسم كا كفارہ لازم آتا ہے.

قسم كا كفارہ يہ ہے كہ دس مسكينوں كو كھانا ديا جائے يا انہيں لباس مہيا كيا، يعنى ہر مسكين كو نصف صاع كھجور يعنى ڈيڑھ كلو كھجو يا چاول جو علاقے كى خوراك ہو ديں، اور اگر انہيں لباس ديں تو اس ميں قميص اور چادر، يا پھر اوپر لينے اور نيچے باندھنے كے ليے دو چادريں ديں تو كافى ہيں.

ليكن اگر آپ كى اپنى قسم ميں نيت يہ تھى كہ اجازت كے بغير نہ جائے، مثلا آپ كا كہنا: اگر تم ميرى اجازت كے بغير گئى تو مجھ پر طلاق " اگر اس ميں آپ كى نيت تھى كہ بغير اجازت گئى تو طلاق لہذا اس ميں كوئى حرج نہيں آپ اپنى نيت پر ہيں اور اس صورت ميں آپ پر كچھ لازم نہيں آتا كيونكہ آپ نے جانے كى اجازت دے دى.

ليكن اگر آپ نے اسے بالكل جانے سے منع كيا تھا تو چاہے وہ آپ كى اجازت سے بھى گئى تو آپ كو قسم كا كفارہ ادا كرنا ہوگا، يہ بھى اس صورت ميں اگر اس سے آپ كا مقصد اسے روكنا اور منع كرنا تھا.

ليكن اگر اس كے نكلنے كى حالت ميں طلاق مقصود تھى اور آپ نے اجازت كى نيت نہ كى تھى بلكہ اسے روكنا چاہا اور نكلنے كى حالت ميں طلاق مقصود تھى تو اس كے نكلنے كى حالت ميں ايك طلاق واقع ہو جائيگى.

اگر آپ نے اس سے قبل دو بارہ طلاق نہ دى تھى تو آپ كو عدت كے اندر بيوى سے رجوع كرنے كا حق حاصل ہے، ليكن اگر عدت ختم ہو گئى اور آپ نے رجوع نہ كيا تو آپ كے ليے حرام ہو جائيگى، اس صورت ميں آپ كے ليے اس سے دوبارہ نئے مہر سے ولى اور گواہوں كى موجودگى ميں نيا نكاح كرنا جائز ہے.

يہ اس صورت ميں ہے جب آپ نے اسے اس سے قبل دو بار طلاق نہ دى ہو، ليكن اگر آپ نے اس سے قبل بھى دو طلاقيں دے دى ہوں اور اس كلام سے آپ كا مقصد طلاق ہو تو پھر يہ آخرى طلاق ہوگى، جب آپ نے پڑوسن كے ہاں جانے كى حالت ميں طلاق واقع ہونے كا ارادہ كيا تو يہ طلاق واقع ہو جائيگى، اور اس طرح تين طلاقيں مكمل ہو جائيگى جبكہ پہلے بھى دو طلاقيں ہو چكى ہوں.

ليكن كسى شخص كا تين طلاق كے الفاظ بولنا علماء كے صحيح قول كے مطابق ايك طلاق ہى شمار كى جائيگى؛ كيونكہ صحيح حديث ميں عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہ سے يہى ثابت ہے جو اسى پر دلالت كرتى ہے .... انتہى

فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ.

ديكھيں فتاوى نور على الدرب ( 3 / 1783 )

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ