قسم اٹھائى كہ دو ماہ تك بيوى كے قريب نہيں جائيگا اور اگر ايسا كيا تو اسے طلاق

ميرے اور بيوى كے درميان چھوٹى سى مشكل پيش آ گئى تو ميں نے قسم كھائى كہ اللہ كى قسم ميں دو ماہ تك بيوى كے قريب نہيں جاؤنگا ( مجامعت نہيں كرونگا )، اور اگر كيا تو بيوى كو طلاق، اس كا حكم كيا ہے، كيا اگر ميں مقررہ مدت ميں اس كے قريب گيا تو اسے طلاق ہو جائيگى يا مجھ پر قسم كا كفارہ لازم ہو گا ؟

الحمد للہ:

اول:

اگر خاوند قسم اٹھائے كہ وہ چار ماہ سے كم مدت بيوى كے قريب نہيں جائيگا تو راجح قول كے مطابق يہ ايلاء ہے، اور تابعين كى ايك جماعت كا يہى قول ہے، اور اگر وہ مدت ختم ہونے تك بيوى كے قريب نہ جائے تو اس پر كچھ لازم نہيں، اور اگر مدت كے دوران بيوى سے مجامعت كر لى تو اس پر قسم كا كفارہ لازم آئيگا.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" امام نخعى اور قتادہ اور حماد، ور ابن ابى ليلى اور اسحاق كا قول ہے كہ جس نے بھى قليل يا كثر وقت ميں وطئ نہ كرنے كى قسم اٹھائى، اور اسے چار ماہ تك چھوڑ ديا تو اس نے ايلاء كيا ہے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ ان لوگوں كے ليے جو اپنى بيويوں سے ايلاء كرتے ہيں وہ چار ماہ تك انتظار كريں }.

اور يہ شخص ايلاء كرنے والا ہے؛ كيونكہ ايلاء حلف ہے اور اس نے قسم اٹھائى ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 7 / 415 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" قولہ: " چار ماہ سے زائد " مؤلف كى كلام كا ظاہر يہ ہے كہ اس اس نے ايلاء كيا كہ وہ چار ماہ تك بيوى سے وطئ نہيں كريگا تو يہ ايلاء نہيں، يا پھر تين ماہ كى مدت تو يہ بھى ايلاء نہيں، اور صحيح يہ ہے كہ يہ ايلاء ہى ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اور وہ لوگ جو اپنى بيويوں سے ايلاء كرتے ہيں چار ماہ انتظار كريں }البقرۃ ( 226 ).

چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ايلاء كو ثابت كيا ہے، ليكن اس كى مدت جس ميں وہ انتظار كريں چار ماہ بنائى ہے، اس ليے اگر كوئى كہے كہ: اللہ كى قسم ميں اپنى بيوى سے تين ماہ تك مجامعت نہيں كرونگا تو اس نے ايلاء كيا؛ كيونكہ اس نے مجامعت نہ كرنے كى قسم اٹھائى ہے.

ليكن اب ہم اسے كچھ نہيں كہيں گے؛ كيونكہ جب مدت ختم ہو جائيگى تو قسم خود بخود ختم ہو جائيگى، اس كى مثال يہ ہے كہ:

" ايك شخص نے اپنى بيوى سے كہا: اللہ كى قسم ميں تم سے تين ماہ تك مجامعت نہيں كرونگا "

تو يہاں ہم كہيں گے: اس نے ايلاء كيا ہے ليكن ہم اسے ايلاء كا حكم لازم نہيں كريں گے، بلكہ تين ماہ گزرنے كا انتظار كريں گے، اور جب يہ مدت ختم ہو جائيگى تو قسم كا حكم ختم ہو جائےگا " انتہى

ماخوذ از: الشرح الممتع ( 13 / 218 ).

دوم:

آپ يہ قول: " اگر ميں اس كے قريب گيا تو اسے طلاق " يہ طلاق شرط پر معلق ہے، اور جمہور فقھاء كرام كے ہاں شرط ثابت ہو جانے پر طلاق واقع ہو جاتى ہے، اس ليے اگر تم نے اس سے جماع كر ليا تو اسے ايك طلاق ہو جائيگى.

اور بعض اہل علم كہتے ہيں كہ يہ خاوند كى نيت پر منحصر ہے، اگر تو اس نے حصول شرط كے وقت طلاق واقع ہونے كى نيت كى تھى تو طلاق واقع ہو جائيگى، اور اگر اس نے طلاق كى نيت نہيں كى، بلكہ وہ صرف دھمكانا اور ڈرانا اور اپنےآپ كو اس سے روكنا چاہتا تھا تو يہ قسم ہے اس ميں قسم توڑنے كى صورت ميں قسم كا كفارہ لازم آئيگا، اور يہى قول راجح ہے اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ وغيرہ نے بھى يہى اختيار كيا ہے.

ہمارى رائے تو يہ ہے كہ دو ماہ تك آپ بيوى كے قريب جانے سے اجتناب كريں تا كہ طلاق كے متعلق احتياط رہے، كيونكہ جمہور اہل علم جن ميں آئمہ اربعہ شامل ہے اس طرح كى حالت ميں طلاق واقع ہونے كا مسلك ركھتے ہيں.

اور تعجب ہے كہ آپ اور بيوى كے مابين ذرا سى مشكل تھى ليكن آپ نے ايسا اقدام كيا اور قسم اٹھا كر طلاق كو معلق كر ديا، جيسا كہ آپ نے بيان كيا ہے، خاوند پر واجب ہے كہ وہ اللہ كا تقوى اختيار كرے، اور اللہ كى حدود كا پاس كرے اور طلاق كو دھكانے كا يا پھر اپنا غصہ ٹھنڈا كرنے كا باعث نہ بنائے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ سب كے حالات كى اصلاح فرمائے.

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ