خاوند كے جعلى سند سے حرام كھانے اور بائيكاٹ كى بنا پر طلاق طلب كر لى

 

 

 

ميں مطلقہ ہوں اور طلاق اس ليے طلب كى كہ خاوند نے مجھے چھوڑ ركھا تھا، اور اس ليے بھى كہ اسنے رشوت دے كر بے اے كى جعلى ڈگرى حاصل كى، اور يہ علم ميں رہے كہ ميں نے اسے نصيحت بھى كى كہ اس گواہى سے آنے والا مال حرام ہے اور پھر وہ بھى اس سے غافل نہ تھا اسے اس كا علم بھى تھا اس نے كئى بار رشوت دى اور جو چاہتا تھا وہ حاصل بھى كيا.
اس كے علاوہ اس نے اپنے اٹھارہ سالہ بھائى كو بھى ميرے ساتھ فليٹ ميں ركھا اور اسے چابى دے ركھى تھى كہ جب چاہے آئے اور جائے، اس سلسلہ ميں ميرا خاوند كے ساتھ اختلاف بھى ہوا، اور اسى وقت ميرے خاوند نے ميرے گھر والوں كى تذليل بھى كى جنہوں نے اس كے ساتھ كوئى برا سلوك نہيں كيا تھا.
يہ علم ميں رہے كہ خاوند كى ملازمت كى وجہ سے ہم كسى دوسرے ملك ميں اكٹھے رہتے تھے اس كے بعد خاوند نے مجھ سے ٹيلى فون بھى لے ليا اور بغير محرم مجھے اپنے پانچ سالہ بچے كے ساتھ اپنے ملك بھى روانہ كر ديا صرف ميرے ساتھ خادمہ تھى، تو يہاں سے اس نے ميرے ساتھ عليحدگى اور بائيكاٹ شروع كيا، اس كے بعد اور بھى بہت سارى مشكلات پيدا ہوئيں جن ميں غير اخلاقى حركات بھى تھيں اور ميں نے طلاق كا مطالبہ كر ديا، تو كيا ميرے طلاق طلب كرنے ميں مجھے كوئى گناہ تو نہيں، اس كا ميرے ساتھ اكثر طور پر معاملہ ايك ملازمہ جيسا تھا اور نہ ہى احترام كرتا تھا

الحمد للہ:

شادى اللہ سبحانہ و تعالى كى نشانيوں ميں سے ايك نشانى اور نعمتوں ميں سے ايك نعمت ہے، جس ميں خاوند اور بيوى سكون و اطمنان اورمحبت و انس پاتے ہيں، اور اسكے ساتھ ساتھ دونوں كو عفت و عصمت اور پاكبازى حاصل ہوتى ہے، اور نيك و صالح اولĀاد پيدا ہوتى ہے جو اللہ كے منھج كے مطابق زمين آباد كرتى ہے. جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے: { اور اس كى نشانيوں ميں سے ہے كہ تمہارى ہى جنس سے بيوياں پيدا كيں تا كہ تم ان سے آرام پاؤ اسنے تمہارے درميان محبت اور ہمدردى قائم كردى يقينا غور و فكر كرنے والوں كے ليے اس ميں بہت سى نشانياں ہيں }الروم ( 21 ). ان مقاصد كى بنا پر شادى مشروع كى گئى ہے، اس ليے اگر يہ مقاصد ہى پورے نہ ہوں تو پھر طلاق كى راہ مشروع ہے تا كہ دوسرى ازدواجى زندگى كى راہ بنائى جا سكے جس ميں نكاح كے اہداف و مقاصد پورے ہو سكيں. آپ نے و خاوند كى جانب سے بائيكاٹ اور برے سلوك كا ذكر كيا ہے اور پھر وہ جعلى سند كے ساتھ حرام كھاتا ہے يہ سب ايسے اسباب ہيں جن كى بنا پر آپ كے ليے طلاق مباح ہو جاتى ہے كيونكہ ترمذى ابن ماجہ اور ابو داود ميں حديث مروى ہے:

ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس عورت نے بھى بغير كسى سبب كے خاوند سے طلاق كا مطالبہ كيا تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: " بغير كسى سبب كے "

يعنى بغير كسى تنگى كے جس سے عليحدگى كا مطالبہ كرنے كى ضرورت آئے.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ آپ كے معاملہ ميں آسانى پيدا فرمائے اور آپ كى معاونت كرے.

واللہ اعلم .

.

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ