دخول سے قبل اور خلوت كے بعد طلاق دينا رجعى ہے يا بائن ؟
ميں نے ايك لڑكى سے عقد نكاح كيا ہے كئى بار ميں نے اس سے لمبى مدت تك خلوت بھى كى، اور ہمارے درميان تقريبا بغير دخول كے معاشرت بھى ہوئى، پھر ميں نے اسے طلاق دے دى كيا مجھے اس سے نئے مہر كے ساتھ نيا عقد نكاح كيے بغير رجوع كا حق حاصل ہے يا نہيں ؟
الحمد للہ:
اگر طلاق دخول اور خلوت سے قبل ہوئى ہو تو يہ طلاق بائن ہو گى اس ميں كوئى رجوع نہيں ہو سكتا، صرف اسى صورت ميں خاوند كو واپس مل سكتى ہے جب وہ نيا نكاح اور نيا مہر ہو، اور پھر اس ميں نكاح كى سب شروط پائى جائيں مثلا بيوى كى رضامندى اور ولى كى موجودگى اور دو گواہ كا ہونا.
ليكن اگر طلاق خلوت كے بعد اور دخول سے قبل ہوئى ہو تو اس مسئلہ ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، چنانچہ جمہور كہتے ہيں كہ يہ پہلے كى طرح طلاق بائن ہے.
اور حنابلہ كہتے ہيں كہ يہ طلاق رجعى ہوگى اس ليے خاوند كو حق حاصل ہے كہ وہ عدت كے اندر اندر بيوى سے رجوع كر سكتا ہے.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں رجوع كرنے كى شروط كى شروط كے متعلق درج ہے:
" دوسرى شرط:
طلاق شدہ بيوى سے رجوع دخول كے بعد ہو، اگر دخول كرنے سے قبل بيوى كو طلاق دے دى اور اس سے رجوع كرنا چاہا تو بالاتفاق اسے رجوع كرنے كا حق حاصل نہيں ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اے ايمان والو جب تم مومن عورتوں سے نكاح كروا ور پھر انہيں چھونے سے قبل طلاق دے دو تو تمہارے ليے ان پر كوئى عدت نہيں جسے تم شمار كرو، چنانچہ تم انہيں فائدہ دو اور انہيں اچھے طريقہ سے چھوڑ دو }.
ليكن حنابلہ نے رجوع كے اعتبار سے صحيح خلوت كو دخول كے حكم ميں شامل كيا ہے؛ كہ اس سے رجوع كرنا صحيح ہے؛ كيونكہ خلوت پر دخول جيسے احكام مرتب ہوتے ہيں، ليكن احناف اور مالكي اور شافعى حضرات كے مسلك كے مطابق صحيح رجوع كے ليے دخول كا ہونا ضرورى ہے، صرف خلوت ہى كافى نہيں " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 22 / 107 ).
الشرح الممتع ميں رجوع كى شروط بيان كرتے ہوئے شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عورت مدخولہ ہو، اور جب يہ كہا جائے كہ وہ مدخولہ ہو يعنى خاوند نے اس سے جماع كيا ہو؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اے ايمان والو جب تم مومن عورتوں سے نكاح كرو پھر انہيں چھونے سے قبل طلاق دے دو تو تمہارے ليے ان پر كوئى عدت نہيں جسے تم شمار كرو }الاحزاب ( 49 ).
اور جب اس كى عدت نہ ہو تو پھر رجوع بھى نہيں ہو سكتا؛ كيونكہ جب اسے نے اسے طلاق دى تو غير مدخولہ تھى تو اس طرح وہ مطلقہ بائن ہو گى، اور اس كى كوئى عدت نہيں.
يا پھر اس عورت سے خلوت كى گئى ہو اور خلوت كرنے والا خاوند ہو، يعنى اس نے بيوى سے دخول كيا ہو يا پھر خلوت كى ہو؛ كيونكہ صحابہ رضى اللہ عنہم كا فيصلہ يہى ہے كہ خلوت دخول كى طرح ہى ہے.
اس ليے اگر خلوت اور دخول سے قبل طلاق ہو تو اس ميں رجوع نہيں ہو سكتا، كيونكہ اس كى عدت نہيں ہے، اس ليے طلاق كا كلمہ كہتے ہى وہ بائن ہو جائيگى اور اس سے جدا ہو جائيگى " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 182 ).
بلاشك و شبہ احتياط اسى ميں ہے كہ جمہور كے قول كو ليا جائے اور نيا نكاح كيا جائے، اور آپ كو چاہيے كہ آپ دونوں تھوڑا سا مہر مقرر كر ليں.
مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 97229 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ