جس طہر ميں جماع كيا اس ميں بيوى كو تين بار طلاق دى
ميرى شادى كو چار ماہ ہوئے ہيں، بيوى اور ميرے درميان كچھ اختلافات پيدا ہو گئے اور اس موضوع ميں ميرى ساس سے دخل اندازى كرنا شروع كر دى اور مجھے ايسى بات كہى جو لائق نہ تھى اس ليے ميں اپنے آپ پر كنٹرول نہ كر سكا اور ساس كو كہنے لگا:
تيرى بيٹى كو طلاق طلاق طلاق، اور ميں نے اپنے سسر كو فون كر كے كہا آپ كى بيٹى كو طلاق پھر ميں اپنى بيوى كے كمرہ ميں گيا اور اسے كہا: تجھے طلاق، يہ سب كچھ ساس كى اس كلام كى وجہ سے ہوا جو صحيح نہ تھى اور اس نے مجھے اس چيز پر مجبور كر ديا جو طلاق كے مقصد كے بغير تھى.
دوسرے دن ميں اور بيوى دونوں ہى نادم ہوئے، ميرى بيوى نے ايك مولانا صاحب سے دريافت كيا تو مولانا صاحب نے دريافت كيا كہ آخرى بار جماع كب ہوا تھا، تو بيوى نے جواب ديا طلاق سے دو دن قبل، مولانا صاحب نے كہا يہ طلاق واقع نہيں ہوئى، اس كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟
الحمد للہ:
اول:
طلاق كے الفاظ استعمال كرنے سے اجتناب كرنا چاہيے، كيونكہ طلاق نفس كو تسكين دينے اور غصہ ٹھنڈا كرنے يا پھر انتقام لينے كے ليے مشروع نہيں كى گئى، بلكہ طلاق تو ضرورت كے وقت اس ميثاق اور معاہدے كو ختم كرنے ليے مشروع كى گئى ہے جو شادى كى شكل ميں بہت پختہ معاہدہ ہے، اور جب بھى خاوند كو غصہ آئے اور وہ طلاق كے الفاظ نكالے تو ہو سكتا ہے وہ طلاق واقع بھى ہو جائے اور بيوى اس سے بائن ہو كر جدا ہو جائے، اور وہ اپنے خاندان اور گھر كا شيرازہ بكھيرنے كا سبب بن جائے حالانكہ وہ ايسا كرنا نہيں چاہتا تھا.
دوم:
مشروع طلاق وہ ہے جو آدمى اپنى بيوى كو حمل كى حالت ميں دے، يا پھر ايسے طہر ميں جس ميں اس نے بيوى سے جماع نہ كيا ہو، ليكن ايسے طہر ميں طلاق دينا جس ميں بيوى سے جماع كيا ہو يہ طلاق بدعى كہلاتى ہے اور كيا يہ طلاق واقع ہو جاتى ہے يا نہيں ؟
جمہور علماء كرام كے ہاں يہ طلاق واقع ہو جاتى ہے، اور اسى طرح جمہور كے ہاں يہ بھى ہے كہ طلاق عدت ميں بھى واقع ہو جاتى ہے، اس ليے اگر خاوند نے بيوى كو ايك طلاق دى اور بيوى كى عدت شروع ہو گئى اور خاوند نے اسے دوسرى طلاق بھى دے دى تو دوسرى طلاق بھى واقع ہو جائيگى، اور اگر وہ پھر اسے تيسرى طلاق بھى دے دے تو يہ بھى واقع ہو جائيگى، اور اس طرح وہ بائن ہو كر اس كے ليے اس وقت تك حلال نہيں ہوگى جب تك وہ كسى دوسرے شخص سے نكاح نہ كر لے، اور يہ نكاح حلالہ نہ ہو بلكہ نكاح رغبت ہو.
اس سے يہ واضح ہوا كہ يہ معاملہ بہت عظيم ہے، اور آپ كے منہ سے جو كلمہ نكلےگا اس كے نتائج بھى ہيں.
ليكن بعض اہل علم كہتے ہيں كہ ايسے طہر ميں دى گئى طلاق جس ميں بيوى سے جماع كيا گيا ہو وہ طلاق واقع نہيں ہوتى، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ اور ان كے شاگرد ابن قيم رحمہ اللہ نے يہى اختيار كيا ہے، اور اس دور كے بہت سارے علماء كا بھى يہى فتوى ہے.
مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" طلاق بدعى كى كئى قسميں ہيں:
كہ آدمى اپنى بيوى كو حيض يا نفاس كى حالت ميں يا پھر ايسے طہر ميں طلاق دے جس ميں بيوى سے جماع كيا ہو، صحيح يہ ہے كہ يہ طلاق واقع نہيں ہوگى " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 58 ).
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اللہ سبحانہ و تعالى نے مشروع كيا ہے كہ عورت كو حيض اور نفاس سے پاكى كى حالت ميں طلاق دى جائے، اور اس حالت ميں كہ اس طہر ميں خاوند نے بيوى سے جماع نہ كيا ہو تو يہ شرعى طلاق ہے، اس ليے اگر اسے حيض يا نفاس ميں يا پھر ايسے طہر ميں طلاق دى جس ميں اس نے بيوى سے جماع كيا تو يہ طلاق بدعى ہے، اور علماء كے صحيح قول كے مطابق يہ طلاق واقع نہيں ہوگى كيونكہ اللہ عزوجل كا فرمان ہے:
{اے نبى ( اپنى امت سے كہو كہ ) جب تم اپنى بيويوں كو طلاق دينا چاہو تو ان كى عدت ( كے دنوں كے آغاز ) ميں انہيں طلاق دو }الطلاق ( 1 ).
اس كا معنى يہ ہے كہ وہ جماع كيے بغير طہر كى حالت ميں ہوں، اہل علم نے اس عدت ميں طلاق كے متعلق يہى كہا ہے، كہ وہ جماع كے بغير طہر ميں ہوں يا پھر حاملہ ہوں، يہى طلاق عدت ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى الطلاق ( 44 ).
اس قول كى بنا پر آپ پر كوئى طلاق واقع نہيں ہوئى.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ