بيوى پر طلاق كى قسم كھائى كہ وہ اپنى بہن كو مال نہ دے

ايك عورت نے اپنى بہن كو كچھ پيسے ديے اور يہ رقم اس كى بہن كى تھى جو اس نے اس كے پاس ركھى ہوئى تھى، خاوند كا اس كا علم نہ تھا، اس ليے كہ خاوند اور بيوى كى بہن ميں كچھ مشكلات تھيں، پھر خاوند نے طلاق كى قسم اٹھائى كہ وہ اپنى بہن كو ميرے علم كے بغير پيسے نہ دے، اس كے بعد بيوى نے اپنى بہن كو كچھ نہيں ديا، اور خاوند كو اس كا بھى علم نہيں كہ قسم اٹھانے سے قبل بيوى نے اپنى بہن كو كچھ رقم دے دى ہے.
يہ علم ميں رہے كہ اس نے جو رقم اپنى بہن كو دى وہ خاوند كے مال ميں سے نہ تھى، برائے مہربانى يہ بتائيں كہ اس كا حكم كيا ہے ؟

الحمد للہ:

جمہور كے قول كے مطابق عورت كو حق حاصل ہے كہ وہ اپنے مال ميں جو چاہے تصرف كرے، ليكن شرط يہ ہے كہ اگر وہ عقل و دانش والى ہو.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عقل و دانش والى عورت كو اپنے سارے مال ميں تصرف كا حق حاصل ہے، چاہے وہ اسے اللہ كى راہ ميں خرچ كر دے يا عوض ميں دے، امام احمد رحمہ اللہ سے ايك روايت يہى ہے اور امام ابو حنيفہ اور امام شافعى اور ابن منذر رحمہم اللہ كا مسلك بھى يہى ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 4 / 299 ).

ليكن اس كا اپنے خاوند كے ساتھ يہ بھى حسن معاشرت ميں شامل ہوتا ہے كہ وہ اس كے متعلق اپنے خاوند كو بتا دے، اگر بيوى صلہ رحمى كرنا چاہتى ہے اور خاوند اسے ناپسند كرتا ہے تو پھر بيوى اسے خفيہ طور پر كر لے.

اور اگر خاوند طلاق كى قسم اٹھائے كہ وہ اپنى بہن كو كچھ نہ دے جيسا كہ سوال ميں ذكر ہوا ہے تو يہ مستقبل ميں كچھ دينے سے تعلق ركھتا ہے، ليكن اگر قسم سے قبل كچھ ديا گيا ہے تو اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى.

طلاق كى قسم اٹھانے كے مسئلہ ميں اہل علم كے مابين اختلاف پايا جاتا ہے:

جمہور اہل علم كے ہاں قسم والى چيز واقع ہونے پر طلاق ہو جائيگى، اس ليے اگر بيوى نے اپنى بہن كو رقم دى تو اسے طلاق واقع ہو جائيگى.

ديكھيں: المغنى ( 7 / 372 ).

اور بعض اہل علم جن ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ شامل ہيں كہتے ہيں كہ:

اگر طلاق قسم كى جگہ ہو اور ايسا كرنے والے شخص كا ارادہ اپنے آپ كو كسى چيز پر ابھارنا يا كسى چيز سے منع كرنا مقصود ہو اور وہ اس سے طلاق كا ارادہ نہ ركھتا ہو تو قسم ٹوٹنے سے طلاق واقع نہيں ہوگى، بلكہ اس پر قسم كا كفارہ لازم ہوگا.

شيخ ابن باز اور شيخ ابن عثيمين رحمہما اللہ نے بھى يہى فتوى ديا ہے، اس قول كى بنا پر خاوند كى نيت ديكھى جائيگى كہ اگر اس نے طلاق كى نيت كى ہو تو طلاق ہو جائيگى، اور اگر صرف روكنا چاہتا ہو اور طلاق كا ارادہ نہ ہو تو پھر بيوى كا اپنى بہن كو مال دينے كى صورت ميں خاوند پر قسم كا كفارہ لازم آئيگا، اور اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى.

اور روكنے كى مدت كے متعلق بھى خاوند كى نيت كو ديكھا جائيگا اور يہ ديكھا جائيگا كہ آيا اس نے بيوى كو بالكل مطلقا مال دينے سے منع كيا ہے يا كہ اس كى نيت مشكل ختم ہونے تك تھى، يا اس نے اس مہينہ دينے سے منع كيا تھا، يا كوئى اور نيت تھى، اس ليے خاوند كى نيت كے مطابق عمل كيا جائيگا.

مزيد آپ سوال نمبر ( 103308 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اللہ سبحانہ و تعالى سب كو اپنى پسند اور رضامندى والے اعمال كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ