سگرٹ نوشى كى تو طلاق كى قسم اٹھائى ليكن بيوى نے سگرٹ نوشى كر لى

ميں جوان لڑكى ہوں اور ميرا نكاح ہو چكا ہے ( لكھا جا چكا ہے ) ميں يہ دريافت كرنا چاہتى ہوں كہ ميرے منگيتر نے شرط ركھى تھى كہ ميں سگرٹ نوشى نہ كروں، اور قسم اٹھائى كہ اگر ايسا كيا تو طلاق.
ايك بار ميں نے بھول كر سگرٹ نوشى كر لى مجھے يہ علم نہيں كہ آيا يہ قسم اٹھانے كے بعد ہوا يا قسم سے قبل، ليكن اللہ كى قسم مجھے يہ علم نہ تھا كہ طلاق واقع ہو جائيگى.
ميں سگرٹ نوشى پر نادم ہوں اور اللہ سے توبہ بھى كر لى ہے كہ ميں ايسا كوئى كام نہيں كرونگى جس سے اللہ تعالى ناراض ہو، اور سگرٹ نوشى بھى نہيں كرونگى، اورالحمد للہ اب ميں اس پر عمل بھى كر رہى ہوں، برائے مہربانى اس كے متعلق معلومات فراہم كريں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے

الحمد للہ:

اول:

جس كسى نے بھى اپنى بيوى پر قسم اٹھائى كہ وہ سگرٹ نوشى نہ كرے وگرنہ طلاق، يا پھر يہ كہے كہ اگر تم نے سگرٹ نوشى كى تو تمہيں طلاق، تو اگر بيوى سگرٹ نوشى كر لے تو جمہور فقھاء كے ہاں اسے طلاق واقع ہو جائيگى.

اور بعض اہل علم كہتے ہيں كہ يہ معلق طلاق ہے اگر آدمى اس سے بيوى كو دھمكانا اور خوفزدہ كرنا چاہتا ہو، اور اسے كوئى كام ترك كرنے پر ابھارنا چاہے مثلا سگرٹ نوشى نہ كرنے پر ابھارنا چاہتا ہو اور طلاق كا ارادہ نہ ركھے تو اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى.

بلكہ اگر بيوى اس كى مخالفت كرتے ہوئے وہ كام كر لے تو خاوند پر قسم كا كفارہ لازم آئيگا، ليكن اگر اس نے طلاق كا ارادہ و نيت كى تو معلق كردہ كام واقع ہونے كى صورت ميں طلاق واقع ہو جائيگى، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ اور بعض اہل علم نے يہى اختيار كيا ہے.

دوم:

صرف شك كى بنا پر طلاق واقع نہيں ہو جاتى بلكہ يقين ہونا ضرورى ہے.

امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جسے نكاح كا يقين ہو جائے اور پھر طلاق ميں شك ہو تو يقين شك كے ساتھ زائل نہيں ہوتا بلكہ يقين كو زائل كرنے كے ليے يقين كى ضرورت ہے " اھـ

ديكھيں: الام ( 8 / 299 ).

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جسے طلاق ميں شك ہو جائے اس پر اس كا حكم لازم نہيں ہوتا، امام احمد رحمہ اللہ نے يہى بيان كيا ہے، اور امام شافعى اور ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا يہى مسلك ہے، كيونكہ نكاح يقين كے ساتھ ثابت ہے اس ليے يہ شك كے ساتھ زائل نہيں ہوگا " انتہى بتصرف

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 8 / 423 ).

اس ليے جب آدمى كو شك پيدا ہو جائے كہ آيا اس كى بيوى كو طلاق ہو گئى ہے يا نہيں تو اس سے طلاق واقع نہيں ہو گى.

اس كى مثال يہ ہے كہ: اگر كسى شخص نے اپنى بيوى كى طلاق كو كسى شرط پر معلق كيا اور پھر شك ہو گيا كہ آيا شرط پورى ہوئى ہے يا نہيں ؟ تو اس سے طلاق واقع نہيں ہو گى.

كشاف القناع ميں درج ہے:

" جب خاوند كو شك ہو جائے كہ اس كى بيوى كو طلاق ہوئى ہے يا نہيں ؟ يا پھر طلاق كى شرط كے وجود ميں شك ہو جائے تو بيوى كو طلاق نہيں ہو گى، كيونكہ نكاح تو يقين كے ساتھ ثابت ہوا ہے اور يہ شك سے زائل نہيں ہو گا " انتہى

ديكھيں: كشاف القناع ( 5 / 331 ).

يہ تو اس كا جواب ہے جس كے متعلق آپ نے دريافت كيا ہے، كيونكہ آپ كو يہ شك ہے كہ آيا يہ قسم كے بعد سگرٹ نوشى ہوئى يا كہ قسم سے قبل، تو اس شك سے طلاق واقع نہيں ہو گى.

سوم:

ہم اللہ كا شكر كرتے ہيں كہ اس نے آپ پر احسان كرتے ہوئے آپ كو توبہ كى توفيق ديتے ہوئے حرام كردہ سگرٹ نوشى ترك كرنے كى ہمت دى، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو مزيد توفيق اور ثابت قدمى سے نوازے.

واللہ اعلم .

.

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ