بيوى كو كہا: ہر چيز ختم ہو گئى پتہ نہيں اس ميں طلاق كى نيت تھى يا نہيں

بيوى كے ساتھ كچھ مشكل سى ہوئى تو ميں نے بيوى سے كہا: گاڑى سے اتر جاؤ تمہيں تمہارا پيپر مل جائيگا، اس وقت سے اب تك ميں طلاق كے معاملہ ميں تردد ركھتا ہوں، ايك بار توم يرے دل ميں آيا كہ ميں اسے دوبارہ طلاق دے دونگا، اور كبھى دل ميں كہتا ہوں ميں اسے طلاق نہيں دونگا، بلكہ اسے ايك موقع ديتا ہوں.
ميرى بيوى حاملہ تھى ولادت سے قبل ميں اپنے علاقے كے دار الافتاء گيا اور ان كے سامنے اپنى مشكل پيش كى اور ان سے فتوى مانگا كہ آيا طلاق واقع ہو گئى ہے يا نہيں ؟
انہوں نے فتوى ديا كہ طلاق واقع نہيں ہوئى كيونكہ آپ نے طلاق كا ورقہ نہيں بھيجا، ميں نے فيصلہ كيا كہ وہ اپنے ميكے ميں رہے تا كہ اسے ادب حاصل ہو اور وہيں ولادت بھى ہو.
ميں نے دل ميں كہا كہ ميں اسے واپس لے آؤنگا ليكن مفتى صاحب كے پاس جا كر اطمنان كرونگا اور ان كے سامنے دوبارہ مسئلہ پيش كر فتوى لوں گا، ليكن ميں نےايك اور بات زائد كى جو پہلے بيوى كو نہيں كہى تھى، كيونكہ ميں اسے بھول گيا تھا يا پھر ميرى جہالت كى بنا پر كر يہ طلاق كے مسئلہ ميں نہيں وہ يہ تھا:
ميں نے بيوى كاغذ بھيجنے كے ساتھ يہ بھى كہا تھا كہ ہر چيز ختم ہو گئى، تو مجھے مفتى صاحب نے كہا: يہ تو آپ كى نيت پر منحصر ہے اور دوسرے امور جن كا يقين كرنا ضرورى ہے ميں اپنے معاملہ ميں پريشان ہوں مجھے اپنى نيت كے بارہ ميں كچھ علم نہيں.
آيا يہ دھمكى تھى يا كہ ميں اس وقت غصہ كى حالت ميں تھا اور اس سے كچھ اور مقصد تھا ؟
اب عورت نے بچہ جن ديا ہے اور مجھے معلوم نہيں ہو رہا كہ ميں كيا كروں ؟

الحمد للہ:

آپ كا اپنى بيوى سے كہنا: گاڑى سے اتر جاؤ تمہيں عنقريب تمہارا كاغذ پہنچ جائيگا، اور ہر چيز ختم ہو گئى يہ طلاق كے كنايہ ميں شامل ہوتے ہيں، اس ليے اس ميں آپ كى نيت ديكھى جائيگى.

اگر تو آپ كى نيت بيوى كو طلاق كى دھمكى دينا اور اسے خوفزدہ كرنا تھا، تو طلاق اسى وقت واقع ہوگى جب آپ طلاق ديں گے.

اور اگر اس كلام سے آپ كى نيت طلاق تھى تو اسے ايك طلاق ہو گئى ہے، اور عدت كے دوران آپ ك رجوع كرنے كا حق حاصل تھا، يہ معلوم ہے كہ حاملہ كى عدت وضح حمل ہے، اس ليے جب رجوع كے بغير عدت گزر جائے تو آپ اس سے نئے مہر كے ساتھ نيا نكاح پورى شروط كے ساتھ كر سكتے ہيں.

اور بعض اہل علم كے ہاں جب جھگڑا يا غصہ كى حالت ميں يہ كلام كى جائے تو طلاق كنايہ سے بغير نيت كے بھى طلاق واقع ہو جاتى ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رہے طلاق كے غير صريح الفاظ تو اس سے طلاق كى نيت كے بغير طلاق واقع نہيں ہوتى، يا پھر حال كى دلالت كے بغير طلاق نہيں ہوتى " انتہى

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 306 ) مزيد آپ شرح منتھى الارادات ( 3 / 87 ) كا بھى مطالعہ كريں.

اور زاد المستقنع ميں درج ہے:

" طلاق كے كنايہ والے الفاظ سے طلاق اسى وقت واقع ہو گى جب الفاظ كے ساتھ نيت طلاق ہو، مگر جھگڑے يا غصہ يا سوال كے جواب ميں " انتہى مختصرا.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ اس كى شرح ميں كہتے ہيں:

" يہ تين حالات ہيں جن ميں نيت كے بغير كنايہ كے الفاظ سے طلاق واقع ہو جاتى ہے، چنانچہ قولہ: جھگڑے كى حالت ميں "

يعنى بيوى كے ساتھ جھگڑے كى حالت ميں خاوند نے بيوى سے كہا جاؤ اپنے ميكے چلى جاؤ، تو طلاق واقع ہو جائيگى اگرچہ اس نے نيت نہ بھى كى ہو، كيونكہ ہمارے پاس قرينہ ہے جو اس پر دلالت كرتا ہے كہ اس نے بيوى سے عليحدگى اور اسے چھوڑنے كا ارادہ كيا تھا.

اور قولہ: يا غصہ كى حالت ميں " يعنى غضب كى حالت ميں چاہے جھگڑے كے بغير ہو، مثلا وہ اسے كوئى كام كرنے كا كہتا ہے اور بيوى كام نہيں كرتى تو خاوند غصہ ميں آ كر كہتا ہے جاؤ اپنے گھر والوں كے پاس چلى جاؤ تو طلاق واقع ہو جائيگى چاہے اس نے نيت نہ بھى كى ہو.

اور قولہ: يا سوال كے جواب ميں " يعنى بيوى نے كہا مجھے طلاق دے دو تو خاوند كہتا ہے: جاؤ اپنے گھر والوں كے پاس چلى جاؤ تو طلاق واقع ہو جائيگى...

ليكن صحيح يہى ہے كہ نيت كے بغير كنايہ سے طلاق واقع نہيں ہوتى، حتى كہ ان حالات ميں بھى؛ كيونكہ ہو سكتا ہے انسان بيوى كو كہے: جاؤ نكل جاؤ، يا اس طرح كے الفاظ غصہ ميں آ كر كہے اور اس كى نيت ميں بالكل طلاق نہ ہو " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 75 ).

شيخ رحمہ اللہ نے جسے راجح قرار ديا ہے اس كى بنا پر ہم كہتے ہيں كہ:

اگر آپ نے اپنى سابقہ كلام سے طلاق كى نيت نہيں كى تھى تو طلاق واقع نہيں ہوئى، اور اگر آپ كو نيت كا علم نہيں تو اصل ميں عدم نيت ہے، چنانچہ اس وقت طلاق واقع نہيں ہوئى.

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ