بيوى دعوى كرتى ہے كہ خاوند نے اس كى بيٹى سے جنسى زيادتى كى اور بھاگ كيا كيا خود بخود ہى طلاق واقع ہو جائيگى ؟
ايك مسلمان عورت جس كى چند ماہ كى بيٹى تھى نے ايك مسلمان شخص سے شادى كى مذكورہ شخص اس بچى كے ليے باپ كى ذمہ دارى ادا كر رہا تھا، ليكن وہ شخص اپنے ملك سے واپس لوٹ كر آيا تو يہ انكشاف ہوا كہ اس نے چھوٹى بچى كے ساتھ زيادتى كى ہے، اور احتمال ہے جنسى زيادتى بھى ہوئى ہو، ليكن مذكورہ شخص اس سے انكار كرتا ہے.
اس كے مقابلہ ميں ميڈيكل رپورٹ بتاتى ہے كہ اس سے جنسى زيادتى ہوئى ہے، اور كچھ ہفتے علاج معالجہ كے بعد بچى نے يہ اقرار كيا كہ اس شخص نے ہى اس سے يہ كھلواڑ كيا ہے، اور اس كا ابھى تك يہى خيال ہے كہ جو كچھ ہوا ہے وہ صرف بوس و كنار تك ہى رہا ہے.
اس وقت سے ابھى تك مذكورہ شخص واپس نہيں آيا اور اس كى تلاش جارى ہے، ميرا سوال يہ ہے كہ:
كيا ميرى يہ شادى خود بخود ہى ختم اور باطل ہو جائيگى يا نہيں، اور اگر ختم نہيں ہوئى تو ماں اس شادى كو كس طرح ختم كر سكتى ہے، برائے مہربانى جواب ارسال ضرور كريں ؟
الحمد للہ:
اول:
بلاشك اس عورت كے خاوند نے بچى كے ساتھ جو كچھ كيا ہے ـ اگر ثبوت مل جائے ـ اس كى بنا پر وہ رجم كا مستحق ٹھرتا ہے، يعنى اسے پتھر مار مار كر ہلاك كر ديا جائے، اس طرح كے حادثات و واقعات اللہ تعالى كى شريعت مطہرہ سے دورى كى دليل ہيں.
جس كا نتيجہ يہ نكلتا ہے كہ مسلمان شخص كو چاہيے كہ جس سے وہ رغبت ركھتا ہے اس سے شادى كى كوشش كرنى چاہيے، اور مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ اپنى بيوى كى قريبى رشتہ دار لڑكيوں كو كمزور ايمان والے اشخاص سے خلوت كرنے ميں سستى و كوتاہى مت كرے چاہے وہ چھوٹى عمر كى ہى ہوں.
دوم:
يہ معلوم ہے كہ آدمى كے ليے نكاح ميں دو بہنوں كو جمع كرنا جائز نہيں، اور اس كے ليے جائز نہيں كہ عقد نكاح ہو جانے كے بعد بيوى كى ماں يعنى ساس سے شادى كرے، اور اگر عورت سے دخول كر لے تو اس عورت كى بيٹى سے بھى نكاح نہيں كر سكتا.
يہاں يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ آيا جب كوئى شخص بيوى كى بہن يعنى اپنى سالى يا بيوى كى بيٹى يا بيوى كى ماں سے زنا كرے تو كيا اس كے ليے اس كى بيوى حرام ہو جاتى ہے اور اسے طلاق دينا واجب ہو جاتا ہے يا نہيں ؟
اور اگر اس نے اس عورت سے ابھى شادى نہيں كى تو كيا وہ اس عورت سے شادى كر سكتا ہے يا نہيں ؟
جواب يہ ہے كہ:
اہل علم كے ہاں يہ مسئلہ اختلافى ہے:
1 ـ جمہور علماء كرام كے ہاں اس كى بيوى اس پر حرام نہيں ہو گى، يہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما اور عروۃ اور سعيد بن مسيب اور امام زھرى كا قول ہے، اور جمہور علماء كا مسلك بھى يہى ہے.
بعض اہل علم نے ابن عباس رضى اللہ تعالى سے نقل كيا ہے كہ اس كى بيوى اس پر حرام ہو جائيگى، ليكن يہ ضعيف ہے، اور صحيح يہى ہے جو اوپر بيان ہوا ہے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
جمہور علماء كرام كى دليل يہ ہے كہ:
يعنى شريعت ميں نكاح كا اطلاق تو معقود عليہا يعنى جس عورت كے ساتھ عقد نكاح كيا جائے اس پر ہوتا ہے، نہ كہ صرف وطئ كرنے سے.
اور اس ليے بھى كہ زنا ميں نہ تو كوئى مہر ہوتا ہے اور نہ ہى عدت اور وراثت.
ابن عبد البر كہتے ہيں:
سب علاقوں كے اہل فتوى حضرات كا اتفاق ہے كہ زانى پر وہ عورت حرام نہيں ہوتى جس سے ان نے زنا كيا ہے، اس ليے اس كى ماں اور بيٹى سے نكاح كرنا بھى جائز ہوا.
2 ـ ابراہيم نخعى، شعبى، ابو حنيفہ اور ان كے اصحاب، احمد اسحاق ـ اور مالك كى ايك روايت يہ ہے كہ جب كسى عورت سے زنا كيا جائے تو اس كى ماں اور بيٹى اس پر حرام ہو جائيگى.
3 ـ احناف كا مسلك يہ ہے ـ اور شافعى كا ايك قول ـ كہ كسى مباح سبب كى وجہ سے شہوت كے ساتھ مباشرت ملحق ہو گى جماع كے ساتھ كيونكہ يہ استمتاع ہے، ليكن حرام مثلا زنا يہ اثرانداز نہيں ہوگا، ان كا كہنا ہے كہ بيوى كى ماں كو صرف چھونے اور اس كى شرمگاہ ديكھنے سے ہى اس پر بيوى حرام ہو جائيگى.
ابراہيم نخعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ان كا كہنا ہے كہ: جب كوئى شخص كسى عورت كا وہ كچھ ديكھ لے جو اس كے ليے حلال نہيں يا پھر اسے شہوت كے ساتھ چھو لے تو اس پر وہ سب حرام ہو جائينگى.
ديكھيں: المصنف ( 3 / 303 ).
جمہور كا مذہب راجح ہے يہ كہ بيوى كى ماں يا بيٹى يا بہن سے كوئى حرام كام كرنے سے بيوى حرام نہيں ہوگى، چاہے اس نے اس عورت سے شادى كى ہو يا شادى كے بعد.
اس سے يہ معلوم ہوا كہ جس خاوند نے بيوى كى بيٹى سے زيادتى كى حتى كہ اگر يہ ثابت بھى ہو جائے كہ اس نے اس سے زنا كيا ہے تو بھى اس حرام اور قبيح فعل كى بنا پر اس كى بيوى اس پر حرام نہيں ہوگى.
امام بخارى رحمہ اللہ نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ:
" جب كسى شخص نے اپنى بيوى كى بہن سے زنا كيا تو اس كى بيوى اس پر حرام نہيں ہو گى "
صحيح بخارى ( 5 / 1963 ).
اور امام بيہقى رحمہ اللہ نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے:
ايك شخص نے اپنى بيوى كى ماں سے حرام كا ارتكاب كر ليا تو ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے فرمايا:
" اس نے دو حرمتوں كو پامل كيا، ليكن اس كى بيوى اس پر حرام نہيں ہو گى "
سنن بيہقى ( 7 / 168 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" مسئلۃ:
اگر كسى شخص نے ايك عورت سے زنا كر ليا تو كيا اس عورت كى اصل اور فرع دونوں اس پر حرام ہو جائينگى، اور كيا اس عورت پر اس شخص كى اصل اور فرع دونوں حرام ہو جائينگى ؟
جواب:
حرام نہيں ہونگى؛ كيونكہ يہ اس آيت ميں داخل نہيں ہيں:
{ اور تمہارى بيويوں كى مائيں اور تمہارى پرورش كردہ وہ لڑكياں جو تمہارى گود ميں ہيں، تمہارى ان بيويوں سے جن سے تم دخول كر چكے ہو، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ كيا ہو تو تم پر كوئى گناہ نہيں، اور تمہارے صلبى سگے بيٹوں ى بيوياں اور تمہارا دو بہنوں كا جمع كرنا، ہاں جو گزر چكا سو گزر چكا، يقينا اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے }النساء ( 23 ).
زانى عورت اس ميں داخل نہيں ہوتى؛ چنانچہ اگر كسى شخص نے كسى عورت سے زنا كيا تو ہم يہ نہيں كہينگے: يہ عورت اس كے حلائل يعنى اس كى بيويوں ميں شامل ہو گئى ہے اور نہ ہى ہم يہ كہيں گے: جس عورت سے زنا كيا اس كى ماں اس كى بيوى كى ماں شامل ہوگئى ہے؛ تو پھر يہ حلال ہو گى كيونكہ يہ اللہ تعالى كے اس فرمان ميں داخل ہوتى ہے:
{ اور ان كے علاوہ تمہارے ليے حلال كى گئى ہيں } النساء ( 24 ).
ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 179 ).
سوم:
آپ كو حق حاصل ہے كہ شرعى قاضى سے دو شرعى اسباب كى بنا پر فسخ نكاح كا مطالبہ كر سكتى ہيں:
پہلا سبب:
خاوند كے فسق و فجور كى بنا پر كہ اس نے يہ قبيح جرم كيا ـ اس كے ثابت ہو جانے كے بعد ـ .
دوسرا سبب:
خاوند كا گھر سے غائب ہو جانا، يہ دونوں ايسے سبب ہيں جن كى بنا پر آپ كے ليے فسخ نكاح طلب كرنا حلال ہو جاتا ہے، اور آپ كے ليے پورے حقوق طلب كرنا جائز ہو جاتے ہيں.
اسے طلاق ضرر يعنى ضرر كى بنا پر طلاق كا نام ديا جاتا ہے، امام مالك اور امام احمد دونوں كا يہى كہنا ہے، وہ ضرر جس كى بنا پر خاوند اور بيوى كے مابين عليحدگى طلب كرنا جائز ہو جاتى ہے وہ ہر اس ضرر كو شامل ہے جو بيوى كے ليے نقصان اور برے سلوك كا باعث بنے چاہے وہ جسمانى ہو يا نفسياتى يا معنوى.
اور يہ چيز عورتوں اور ماحول اور عرف عام اور رسم و رواج كے مختلف ہونے كى بنا پر مختلف ہوگى، جس ضرر كى بنا پر عورت عليحدگى كا مطالبہ كر سكتى ہے اس كى مثالوں ميں يہ شامل ہے كہ:
بيوى كوب يغر كسى شرعى سبب كے زدكوب كيا جائے، اور اسے كسى ايسے فعل كو سرانجام دينے پر مجبور كيا جائے جو حرام ہو يا پھر واجب ترك كرنے پر مجبور كيا جائے، اور خاوند كا فسق و فجور اور اس كا برا سلوك بھى اسى ميں شامل ہے.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ