غصہ كى حالت ميں طلاق
ميں ايك حادثے كے متعلق دريافت كرنا چاہتا ہوں جو ايك مسلمان بھائى كے ساتھ پيش آيا: اس مسلمان شخص نے اپنى بيوى سے كہا: ميں نے تجھے تين طلاق ديں، ليكن كچھ گھنٹوں كے بعد كہنے لگا: ميں نے تو يہ غصہ كى حالت ميں كہا تھا.
جناب مولانا صاحب ميرا سوال يہ ہے كہ: كيا اس بھائى كو بيوى سے رجوع كرنے كا حق حاصل ہے يا نہيں ؟
آپ شرعى دلائل كے ساتھ جواب ديں، يہ علم ميں رہے كہ اس مسئلہ ميں ہم نے كئى ايك نظريہ سن ركھا ہے ليكن دلائل كے بغير ہى ان ميں صحيح كيا ہے ؟
الحمد للہ:
غصہ كى تين قسميں ہيں:
پہلى حالت:
غصہ اتنا شديد ہو كہ جس ميں احساس و شعور جاتا رہے، اسے مجنون و پاگل كے ساتھ ملحق كيا جائيگا، اور سب اہل علم كے ہاں اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى، كيونكہ يہ مجنون اور پاگل جس كى عقل زائل ہو چكى ہے كى جگہ ميں ہے.
دوسرى حالت:
اگرچہ شديد غصہ ہو ليكن اس كا شعور اور احساس نہ جائے بلكہ اسے اپنے آپ پر كنٹرول ہو اور عقل ركھتا ہو، ليكن يہ ہے كہ غصہ بہت زيادہ شديد ہو، اور وہ زيادہ جھگڑے يا گالى گلوچ يا لڑائى كى بنا پر اپنے آپ پر كنٹرول نہ ركھ سكے، اور اس وجہ سے اس كا غصہ زيادہ شديد ہو جائے تو اس ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے.
راجح يہى ہے كہ اس كى بھى طلاق واقع نہيں ہو گى كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اغلاق كى حالت ميں نہ تو غلام آزاد ہوتا ہے اور نہ ہى طلاق ہوتى ہے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2046 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے الارواء الغليل ( 2047 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اہل علم كى ايك جماعت نے " اغلاق " كا معنى يہ كيا ہے كہ اس سے مراد اكراہ يعنى جبر يا شديد غصہ ہے.
تيسرى حالت:
ہلكا اور عام غصہ، جو بيوى كے كسى كام كو ناپسند كرتے ہوئے آتا ہے اور خاوند ناپسند كرتا ہے ليكن غصہ اتنا شديد نہ ہو كہ وہ ہوش و ہواس ہى كھو بيٹھے، بلكہ عام ہلكا سا غصہ ہو تو سب اہل علم كے ہاں اس ميں طلاق ہو جاتى ہے.
غصہ ميں دى گئى طلاق كے مسئلہ ميں اس تفصيل كے ساتھ صحيح يہى ہے جو اوپر بيان كيا گيا ہے، اور جيسا كہ ابن تيميہ رحمہ اللہ اور ابن قيم رحمہ اللہ نے لكھا ہے.
و اللہ تعالى اعلم، و صلى اللہ على نبينا محمد.
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ