ٹيلى فون پر نكاح اور ايسا كرنے والے پر مرتب ہونے والے احكامات
جناب والا ميرے سوال كا جواب جلد ديں كيونكہ مجھے سوال يہ ہے كہ ميں نے گھر ميں كام كاج كرنے والى ملازمہ سے بيوى كے كہنے پر شادى كى تا كہ بہت سارى برائيوں اور فتنوں سے بچ سكوں، كيونكہ بيوى كا آپريش ہونے والا تھا اس ليے بيوى كى يہ تجويز پيش كى كہ اس سے شادى كر لو.
چنانچہ اس عورت كى موجودگى ميں دو گواہوں كو لا كر عقد نكاح لكھ ديا گيا اور مہر متعين كر ليا پھر عورت كے ملك ميں اس كے ولى سے رابطہ كيا گيا ليكن وہ نہ مل سكا عورت كى بہن ملى تو ہم نے اسے اس شادى پر رضامند ہونے كے متعلق بتايا اس كى بہن نے اپنے والد كو بتانے كا وعدہ كيا اس كے كہنے كے مطابق والد صاحب كو شادى پر كوئى اعتراض نہيں، اس طرح عورت اور دو گواہوں كے عقد نكاح پر دستخط ہو گئے اور اسے مہر بھى ادا كر ديا گيا، ليكن والد كى رائے معلوم ہونے تك رختصى مؤخر كر دى گئى.
ليكن ميں اس سے مطمئن نہ تھا، ميں اور دونوں گواہوں نے عورت كے والد سے رابطہ كرنے كى كوشش كى ليكن كوئى فائدہ نہ ہوا، اس عورت نے دو روز كے بعد اور نمبر ديا جس پر فون كيا گيا تو اس نے بتايا كہ بات كرنے والا اس كا والد ہے ميں نے اس كے بارہ ميں اس كى رائے معلوم كى تو اس نے حلال حلال كہہ كر اس كى موافقت كى، پھر نے عورت كو ٹيلى فون ديا تو وہ انتہائى خوش تھى، ميرى پہلى بيوى كى موجودگى ميں ہى رخصتى ہوئى اور معاملات اچھے رہے.
ليكن دوسرے روز دوپہر كے وقت ميرى بيوى كو اپنے خاوند كى تصوير دى جو تين برس قبل فوت ہوچكا تھا اور كہنے لگى: حرام حرام، اس كا اعتقاد تھا كہ يہ اس كى اپنے سابقہ خاوند كے ساتھ خيانت ہے! پھر اس نے بتايا كہ ٹيلى فون پر بات كرنے والا اس كا والد نہيں بلكہ بہنوئى تھا! اس وقت سے ميں پريشان ہوں، پھر بعد ميں ميرى پہلى بيوى اور دوسرى كے مابين جھگڑا سا ہوا اور ميرى پہلى بيوى نے گھر سے جانے كا عزم كر ليا اور دوسرى بيوى كو طلاق كى صورت ميں ہى واپس آنے كا كہنے لگى.
لہذا ميں نے اس كے سامنے ہى يہ الفاظ تين بار دھرائے اللہ كى قسم فلان كو طلاق، جب ميرى پہلى بيوى ٹھنڈى ہوئى تو ہم دونوں اس عورت كے پاس گئے اور اسے " تجھے طلاق تجھے طلاق " كہے تيسرى نہيں دى، وہ ميرى زبان نہيں سمجھتى تھى اس نے ميرى پہلى بيوى سے اس كا معنى پوچھا تو اسے بتايا گيا.
برائے مہربانى مجھے اس سارے واقعہ كے بارہ بتائيں كہ جو كچھ ہوا ہے اس كا حكم كيا ہے، شادى اور طلاق اور مہر كا استحقاق، اس نے مہر والد كو بھيجھنے كا كہا تھا ليكن اكاونٹ نمبرضائع ہوگيا، ميرے كچھ دوستوں نے مشورہ ديا كہ اس كے ملك كا ہى كوئى شخص اس كے ملك بھيج كر اس كے گھر والوں سے رابطہ كيا جائے اور شخصى طور پر شادى كى موافقت حاصل كى جائے، اس كے ملك كاايك عالم دين شخص جا رہا ہے كيا ميں يہ كام اس كے ذمہ لگا دوں ؟
الحمد للہ:
آپ اور اس عورت كے مابين كيا گيا عقد نكاح شرعا باطل ہے، كيونكہ نكاح كى شروط ميں عورت كے ولى كى موافقت ضرورى ہے، جوكہ عقد نكاح لكھے جانےكے وقت موجود نہيں تھا، اس بنا پر يہ عقد نكاح فاسد اور باطل ہو جائيگا.
عقد نكاح لكھے جانے كے بعد ٹيلى فون كرنے كا كوئى فائدہ نہيں، كيونكہ آپ كو عو ت كا ولى ہى عورت نكاح كر كے دےگا، يہ نہيں كہ ولى كى اجازت كے بغير عقد نكاح ہو جانے كے بعد ولى كى عقد نكاح پر موافقت طلب كى جائے.
يہ تو اس صورت ميں ہے جب آپ عقد نكاح كرنے سے قبل ٹيلى فون پر ولى كى موافقت حاصل كريں اور ٹيلى فون پر نكاح كر ليں تو بھى عقد نكاح صحيح نہيں ہوگا؛ تو پھر اگر عقد نكاح كے بعد ولى كى موافقت اور اجازت حاصل كرنے سے كيسے صحيح ہو جائيگا؟!
كيونكہ ٹيلى فون پر عقد نكاح كيے جانے سے بہت سارى اشياء ايسى پيدا ہوتى ہيں جن كے نتيجہ ميں بہت خرابيوں اور فساد كا انديشہ ہے، اور پھر عقد نكاح ميثاق غليظ كہلاتا ہے يہ اللہ سبحانہ و تعالى كا كلمہ ہے جس كے ساتھ حرام شرمگاہ حلال كى جاتى ہے، اور اسى كے ذريعہ نسب كا ثبوت ہوتا ہے اس ليے اس طرح كے عقد ٹيلى فون كے ذريعہ طے نہيں پاتے جس ميں ولى كى حقيقت كا ہى علم نہيں ہو سكتا، ہو سكتا ہے ولى بےوقوف يا پھر پاگل ہو يا غير مسلم ہو يا پھر كوئى دوسرا شخص ولى كى آواز ميں نقل اتار كر بات كر رہا ہو، يا پھر اسے ولى سمجھا جائے ليكن حقيقت ميں وہ ولى نہيں.
اور آپ كا يہ قصہ اور واقعہ بھى اس ممانعت ميں اور زيادہ تاكيد پيدا كرتا ہے، اس ليےصحيح يہى ہے كہ اس طرح كے عقد نكاح ٹيلى فون كے ذريعہ نہ كيے جائيں.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر نكاح كے اركان اور شروط متوفر ہوں ليكن خاوند اور عورت كا ولى عليحدہ عليحدہ ملك ميں ہوں تو كيا ٹيلى فون كے ذريعہ عقد نكاح ہو سكتا ہے يا نہيں ؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" ان ايام ميں دھوكہ اور فراڈ كى كثرت اور لوگوں كا ايك دوسرے كى آواز كى نقل اتارنے كى مہارت اور دوسرے كى آواز ميں كلام كرنے تجربہ كو ديكھتے ہوئے، حتى كہ اس وقت تو ايك ہى شخص ايك ہى وقت ميں چھوٹے بڑے مرد و عورت اور بچوں كى آواز نكالنے كى طاقت ركھتا ہے اور ا نكى آواز ميں بات چيت كر سكتا ہے اور مختلف زبانوں ميں بات كر كے سامع كے ذہن ميں كئى ايك اشخاص ہونے كا گمان ڈال سكتا ہے، حالانكہ حقيقت ميں تو وہ اكيلا اور ايك ہى شخص ہے كو مد نظر ركھتے ہوئے.
اور اس كے ساتھ ساتھ شريعت اسلاميہ ميں شرمگاہوں كى حفاظت اور عفت و عصمت كى ديكھ بھال اور دوسرے معاملات سے بھى زيادہ اس ميں احتياط اور ديكھ بھال كو مد نظر ركھتے ہوئے كميٹى كى رائے يہ ہے كہ: عقد نكاح ميں ايجاب و قبول اور وكيل بنانے كو ٹيلى فون كالز پر انحصار نہ كيا جائے تا كہ شريعت اسلاميہ كے مقاصد پورے ہو سكيں اور شرمگاہوں اور عفت و عصمت كى مزيد حفاظت ہو سكے، اور اہل اہواء و خواہش كے پيروكار دھوكہ و فراڈ دينے والے لوگوں كى عزت كے ساتھ نہ كھيل سكيں.
كميٹى كى رائے يہى ہے كہ عقد نكاح كے ايجاب و قبول اور وكيل بنانے ميں ٹيلى فونك رابطوں پر اعتماد نہ كيا جائے؛ تا كہ مقاصد شريعت كو صحيح طرح پورا اور مكمل كيا جا سكے، اور شرمگاہوں اور عفت و عصمت اور عزتوں كى مزيد حفاظت كى جا سكے، تا كہ خواہشات كے پيچھے بھاگنے والے اور دھوكہ و فراڈ كرنے والے لوگوں سے كھلواڑ نہ كر سكيں"
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے " انتہى
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
الشيخ عبد اللہ بن منيع.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 91 ).
شيخ عبد العزيز الراجحى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا ٹيلى فون كے ذريعہ عقد نكاح كيا جا سكتا ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
" نہيں ٹيلى فون كے ذريعہ عقد نكاح جائز نہيں ہے؛ كيونكہ عقد نكاح ميں چار اشياء كا ہونا ضرورى ہے: ولى اور خاوند اور دو گواہ، اور ٹيلى فون پر ان چاروں كا اكٹھا ہونا ممكن نہيں، صرف آواز كى پہچان ہى كافى نہيں؛ كيونكہ ہو سكتا ہے ٹيلى فون پر ولى كے علاوہ كوئى اور شخص ولى بن كر بات كر رہا ہو.
اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ قبول كرنے والا شخص خاوند كے علاوہ كوئى دوسرا شخص ہو، اور ہو سكتا ہے جو گواہ بن رہا ہے وہ عادل نہ ہو، يہ بھى ہو سكتا ہے كہ ايك ہى شخص آواز بدل كر ولى اور گواہ بن جائے.
مقصد يہ كہ ٹيلى فون پر عقد نكاح جائز نہيں، بلكہ عقد نكاح كى مجلس ميں چار لوگوں يعنى ولى اور خاوند اور دو عادل گواہوں كا جمع ہونا ضرورى ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى الشيخ عبد العزيز الراجحى ( 1 / 53 ) فتوى نمبر ( 1726 ).
اسلامى فقہ اكيڈمى جدہ كا فيصلہ بھى يہى ہے كہ ٹيلى فون پر نكاح نہيں ہوتا.
ديكھيں: فقہ النوازل تاليف ڈاكٹر محمد حسين الجيزانى ( 3 / 106 - 107 ).
يہاں علماء كرام كى كلام بہت پختہ اور پكى ہے، اور آپ اپنے معاملہ ميں اس كى مخالفت واضح ديكھ سكتے ہيں كہ نہ تو ولى نے گواہوں كے سامنے بات كى اور نہ ہى تم اصل ميں اسے جان سكے كہ وہ ولى ہے يا كوئى اور، پھر جس نے آپ كو ولى ہونے كا گمان دلايا اس نے اس سے انكار بھى كيا، لہذا اس كا اثبات نفى پر مقدم نہيں ہوگا!.
بہر حال يہ عقد نكاح باطل ہے، اور آپ سب كو اپنے اس فعل پر توبہ و استغفار كرنى لازم ہے، اس كے ساتھ ساتھ آپ اس عورت كو پورا مہر ادا كريں، اور اس كے بعد جو طلاق ہوئى ہے اس كى كوئى قدر و قيمت نہيں كيونكہ جب نكاح ہى نہيں تو پھر طلاق كيسى ؟
جب آپ اس عورت سے شادى كرنا چاہتے ہيں تو يہ اس طرح ممكن ہے كہ اس كا ولى ذاتى طور پر آئے يا پھر وہ كسى دوسرے شخص كو اپنا قائم مقام اور وكيل بنا دے، اور آپ كے اس عالم دين دوست جو اس عورت كے ملك ہے كے ليے ممكن ہے كہ وہ اس عورت كے ولى كى شخصيت اور اس كى عقل و دين كے بارہ ميں تاكيد كر لے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عقد نكاح ميں ايجاب و قبول كے ليے كسى دوسرے و وكيل بنانا جائز ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عمرو بن اميہ اور ابو رافع كو اپنے نكاح ميں قبول كا وكيل بنايا تھا.
اور اس ليے بھى كہ اس كى ضرورت ہے، كيونكہ ہو سكتا ہے وہ كسى دور جگہ رہ كر شادى كرنا چاہتا ہو جہاں اس كا جانا ممكن نہيں تو وہ كسى كو وكيل بنا سكتا ہے.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ام حبيبہ رضى اللہ تعالى عنہا سے نكاح كيا تو ام حبيبہ حبشہ كى سرزمين پر تھيں.
طلاق خلع اور رجوع اور غلام آزاد كرنے ميں كسى دوسرے كو وكيل بنانا جائز ہے؛ كيونكہ اس ضرورت پڑ سكتى ہے جيسا كہ خريد و فروخت ميں كسى دوسرے كو وكيل بنايا جاتا ہے اسى طرح ان امور ميں بھى بنايا جا سكتا ہے" انتہى
ديكھيں: المغنى ( 5/52 ).
ہم يہاں تنبيہ كرنا چاہتے ہيں كہ سوال نمبر ( 2201 ) كے جواب ميں جو شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے بيان كر چكے ہيں وہ ہمارے يہاں بيان كردہ فيصلہ كے مخالف نہيں يہاں ہم جو فتوى نقل كر چكے ہيں ان ميں شيخ ابن باز رحمہ اللہ كے دستخط بھى ہيں، وہاں اس سوال كے جواب ميں شيخ ابن باز رحمہ اللہ نے بيان كيا ہے كہ ولى نے گواہوں كى موجودگى ميں سپيكر كے ذريعہ اپنى موافقت كا اظہار كيا، اور اس نے خود ہى شادى اور نكاح كيا، بلكہ سوال سے ظاہر ہوتا ہے كہ عقد نكاح كرنے والوں كے مابين پہلے سے تعارف اور جان پہچان تھى، اس ليے وہاہ ابھام اور كھلواڑ نہيں ہو سكتا.
ليكن ہم نے جو مطلقا اس كى ممانعت بيان كى ہے اسى كا فتوى دينا چاہيے تا كہ بالكل كھلواڑ كيا ہى نہ جا سكے اور لوگوں كى عزت و عصمت محفوظ رہے.
واللہ اعلم .
.
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ