والد سفر پر گيا تو دادے نے پوتى كے ناپسند كرتے ہوئے بھى شادى كردى تو كيا يہ عمل صحيح ہے ؟
ايك لڑكى كا والد دوسرے ملك گيا، اس كے جانے كے بعد دادے نے پوتى كى شادى كر دى اور پوتى اسے ناپسند كرتى تھى دادے نے لڑكى كے والد كو بھى نہ بتايا اس كا خيال تھا كہ والد اس پر موافق ہے اور اس طرح شادى ہو گئى، اور جب والد كو اس شادى كا علم ہوا تو اس نے اس شادى سے انكار كيا اور اس كى طلاق لينے كے عزم كا ظاہر كر ديا، اور جب والد سفر سے واپس آيا تو فيصلہ واپس لے ليا اور رخصتى كے طويل عرصہ بعد لڑكى نے بھى اس شادى كو منظور كر ليا، تو كيا يہ عقد نكاح صحيح ہے ؟
اور اس مدت كے متعلق كيا حكم ہے جس ميں وہ اس شادى سے انكار كرتى رہى، اور كيا باپ كے علم كے بغير دادا كو اس شادى كا حق حاصل تھا ؟
اور اب اس شادى كو كئى برس گزرنے كے بعد ان لوگوں پر كيا لازم آتا ہے ؟
الحمد للہ:
اول:
نكاح صحيح ہونے كے ليے شرط ہے كہ عقد نكاح كے وقت ولى يا اس كا وكيل موجود ہو اور وہ نكاح كرے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ولى اور دو عادل گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا "
اسے امام بيہقى نے عمران اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 7557 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو عورت بھى ولى كى اجازت كے بغير نكاح كريگى اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے "
مسند احمد حديث نمبر ( 24417 ) ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2709 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
عورت كا ولى اس كا باپ پھر اس كا بيٹا اور پوتا ( اگر اس كا بيٹا ہو ) پھر اس كا سگا اور حقيقى بھائى، پھر باپ كى جانب سے بھائى، پھر ان كے بيٹے، پھر عورت كے چچا، پھر چچا كے بيٹے پھر باپ كے چچا، پھر حكمرا "
ديكھيں: المغنى ( 9 / 355 ).
قريبى ولى كى موجودگى اور اس كے حاضر ہونے يا وكيل بنانے كے امكان كى صورت ميں دور والا ولى عورت كى شادى كرنے كا حق نہيں ركھتا.
اور اگر قريبى ولى كى غير موجودگى ميں دور والا ولى كسى لڑكى كى شادى كر دے تو اس ميں اہل علم كا اختلاف پايا جاتا ہے، كچھ تو كہتے ہيں كہ: اگر وہ غياب منقطع ہو يعنى اس كى كوئى خبر نہ ہو تو پھر دور كے ولى كو شادى كا حق ہے، اور كچھ كہتے ہيں كہ اگر قريب كے ولى سے رابطہ ممكن نہ ہو اور برابر كا مناسب رشتہ نہ ملنے كا خوف پيدا ہو جائے تو پھر دور كا ولى شادى كر سكتا ہے.
اور كچھ كہتے ہيں كہ: كسى بھى حالت ميں دور كا ولى شادى نہيں كر سكتا، بلكہ اس كى شادى حكمران كريگا.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" جمہور علماء كے ہاں بغير ولى كے نكاح صحيح نہيں، اور نكاح ميں قريب ترين ولى كا خيال ركھا جائيگا، كہ قريب ترين ولى شادى كرے، اور اگر قريب ترين ولى غائب ہو تو پھر علماء كا اختلاف ہے:
احناف اور حنابلہ كہتے ہيں: جب قريب كا ولى غائب ہو اور اس كا رابطہ بھى نہ ہو تو دور كے ولى كے ليے شادى كرنا جائز ہے، مثلا اگر باپ غائب ہے تو پھر دادا شادى كريگا، اور يہ حكمران پر مقدم ہوگا، بالكل اسى طرح اگر قريب والا فوت ہو جائے.
اور احناف كے ہاں منقطع غائب كى حد يہ ہے كہ وہ كسى ايسے علاقے ميں ہو جہاں سے سال ميں صرف ايك بار قافلہ آتا ہو، اور قدورى نے بھى يہى اختيار كيا ہے.
اور ايك قول يہ ہے كہ: مدت كى كم از كم مدت پر ہو، كيونكہ اس كى زيادہ مدت كى انتہاء ہى نہيں.
اور ايك قول يہ ہے كہ: جب اس حالت ميں ہو كہ ولى كى رائے جاننے كے ليے وقت چاہيے اور اس سے برابر كا مناسب رشتہ نہ ملنے كا خوف ہو.
اور حنابلہ كہتے ہيں كہ: منقطع غائب يہ ہے كہ جس مساف كو مشقت و تكليف سے ساتھ قطع كيا جائے، البھوتى نے موفق سے نقل كرتے ہوئے كہا ہے: يہى اقرب الى الصواب ہے.... تو اس طرح مقطع غائب قصر كى مسافت سے زائد ہوگا، كيونكہ اس سے كم مسافت حاضر كے حكم ميں ہوتا ہے.
اور مالكيوں كے ہاں يہ ہے كہ اگر قريب ترين ولى غائب ہو تو غائب كى لڑكى كى شادى حكمران كريگا كوئى اور ولى نہيں اور ولى مجبر كى اجازت كے بغير اس كى شادى كرنا نہ تو حكمران كے ليے جائز ہے اور نہ ہى دوسرے وليوں كے ليے.
حتى كہ ان كا كہنا ہے اگر ولى كى اجازت كے بغير حكمران يا كسى دوسرے ولى نے شادى كر بھى دى تو اس كا نكاح فسخ ہو جائيگا چاہے ولى نے علم ہونے كے بعد اسے برقرار بھى ركھا، اور چاہے اولاد بھى پيدا ہو گئى.
اور شافعى حضرات كا كہنا ہے: اگر نسب اور ولاء كے اعتبار سے قريب ترين ولى دو مرحلوں كى مسافت پر غائب ہو اور اس علاقے ميں كسى كو وكيل بھى نہ بنايا ہو يا پھر قصر كى مسافت پر دو اس علاقے كا حكمران يا اس كا نائب اس كى شادى كريگا، نہ كہ اس علاقے كے علاوہ كوئى اور حكمران، اور صحيح يہى ہے كہ دور كا ولى بھى اس كى شادى نہيں كريگا " انتہى مخصرا
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 31 / 322 ).
اور " زاد المستقنع " ميں ہے كہ:
" اگر قريب ترين ولى اس كى شادى نہ كرے، يا اس ميں اہليت نہ ہو، يا پھر غائب منقطع ہو جس ميں اسے ملنے كے ليے مشقت و تكليف اٹھانى پڑے تو دور كا ولى اس كى شادى كريگا "
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" قولہ: " يا غائب منقطع ہو جس كو پانے كے ليے مشقت و تكليف اٹھانا پڑے تو دور كا ولى اس كى شادى كريگا " يعنى عورت كا مثلا باپ يا بھائى يا اس كا ولى غائب ہو تو اس كى شرح كرتے ہوئے كہا ہے كہ: اس تك جانے كے ليے مشقت و تكليف ہو تو دور كا ولى اس كى شادى كريگا.
اور مؤلف رحمہ اللہ نے اس عيبوبت كى قيد يہ لگائى ہے كہ اس كو مشقت اور تكليف كے ساتھ قطع كيا جائے، تو وقت اور دور كے اعتبار سے يہ مختلف ہوگى، پہلے دور ميں شہروں كے درميان مسافت طے كرنے ميں مشقت و تكليف تھى، ليكن اب تو اتنى سہولت ہو چكى ہے كہ سفر كى ضرورت ہى نہيں رہى، بلكہ ٹيلى فون كے ذريعہ سے بات چيت كى جا سكتى ہے، يا پھر وكالت نامہ لكھ كر فيكس كر سكتا ہے، لہذا مسئلہ تبديل ہو چكا ہے.
اور بعض اہل علم نے قيد لگائى ہے كہ اگر غائب ايسا ہو كہ وہ رشتہ ہى نكل جائے يعنى مثلا وہ شخص كہے كہ ميں دو تين يا دس دن يا ايك ماہ تك انتظار نہيں كر سكتا مجھے ايك دن ميں ہى بتاؤ وگرنہ ميں رشتہ نہيں كرتا.
تو اس صورت ميں بعض اہل علم كہتے ہيں كہ اگر غائب ہونے كى بنا پر برابرى كا رشتہ ہاتھ سے نكل جانے كا خدشہ ہو تو اس كى ولايت ساقط ہو جائيگى....
يہ كہنا چاہيے كہ: اگر ولى سے رابطہ كرنا ممكن ہو تو پھر دور كا ولى اس كى شادى نہ كرے؛ اس ميں سبب يہ ہے كہ اگر اس حالت ميں رابطہ ہو سكنے كے باوجود يہ كہيں كہ دور كے ولى كے ليے اس كى شادى كرنا جائز ہے تو اس سے بدنظمى پيدا ہوگى، اور ہر انسان جو كسى عورت سے شادى كرنا چاہےگا تو والد كے سفر مثلا حج وغيرہ پر جانے كى صورت ميں لڑكى كے چچا كے پاس جا كر رشتہ طلب كريگا اور كہےگا كہ ميرے ساتھ اس كى شادى كر دو، تو اس طرح ايسى بدنظمى پيدا ہو گى جس كى كوئى حد نہيں، چنانچہ صحيح يہى ہے كہ قريب ترين ولى كا خيال كرنا ہو گا اور خاص كر والد ميں اس ليے اس كى شادى ايسى صورت ميں كى جائيگى جب ايسا كرنا ممكن نہ ہو.
مثلا اگر فرض كريں كہ باپ يورپى ممالك ميں ہے اور اس كے متعلق ہميں خبر بھى نہيں تو يہاں ہم كہيں گے اس شخص كو تلاش كرنے كے ليے لڑكى كى مصلحت كو ختم نہيں كريں گے كيونكہ ممكن ہے اس سے رابطہ كرنے اور تلاش كرنے ميں دو يا تين ماہ يا ايك برس لگ جائے اور ہميں اس كى خبر نہ ہو.
اس ليے صحيح يہى ہے كہ جب قريب ترين ولى سے رابطہ كرنا ممكن ہو تو يہ واجب ہے، اور اگر ممكن نہيں اور برابر اور مناسب رشتہ كھو جانے كا خدشہ ہو تو پھر دور كا ولى اس كى شادى كر سكتا ہے " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12/ 89 - 91 ).
دوم:
نكاح صحيح ہونے كے ليے خاوند اور بيوى كى رضامندى شرط ہے، اور باپ كے علاوہ كسى دوسرے ولى كو جمہور فقھاء كے ہاں اپنى بالغ اور كنوارى بيٹى كو نكاح پر مجبور كرنا جائز نہيں، اس ليے دادے كو كنوارى اور عقلمند لڑكى كو نكاح پر مجبور كرنے كا حق نہيں، اگر وہ اس كا نكاح كر دے اور لڑكى اس كو پسند نہ كرتى ہو تو يہ نكاح صحيح نہيں ہوگا.
مزيد تفصيل كے ليے ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 41 / 259 - 267 ).
راجح يہى ہے كہ باپ بھى عاقل و بالغ كنوارى بيٹى كو نكاح پر مجبور نہيں كر سكتا، بلكہ اس سے اجازت لينى ضرورى ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ( پہلے خاوند والى ) شادى شدہ عورت كا نكاح اس كى اجازت كے بغير نہيں ہوتا، اور نہ ہى كنوارى كى اجازت كے بغير اس كا نكاح كيا جائيگا، صحابہ كرام نے عرض كيا: اس كى اجازت كس طرح ہوگى؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اس كى اجازت اس كا سكوت اور خاموشى ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5136 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1419 ).
اوپر فقھاء كرام كى جو كلام بيان ہوئى ہے اس كى بنا پر اور باپ ايسا غائب نہيں كہ اس تك جانے ميں مشقت برداشت كرنى پڑے ـ كيونكہ اب تو مسافر كے ساتھ رابطہ كرنے ميں بالكل آسان ہے... اور اس كے ساتھ كہ جب اسے نكاح كا علم ہوئے تو وہ اس كا انكار كرے، اور يہ بھى كہ بيوى اثنائے عقد ميں بيوى اس شادى كو ناپسند كر رہى ہو، چنانچہ ہمارى رائے تو يہى ہے كہ نكاح كى تجديد كر لى جائے، اور اگر ان كى اولاد ہے تو وہ اپنے باپ كى جانب منسوب ہونگے؛ كيونكہ اس نے نكاح كيا تو وہ اس كو صحيح سمجھتا تھا.
اولياء كو چاہيے كہ وہ اللہ كا تقوى اختيار كريں، اور عورتوں كا نكاح ايسى شخص سے مت كريں جسے وہ ناپسند كرتى ہيں، اور وہ حدود اللہ كا كا خيال ركھيں، اور جس كو مقدم كرنا حق ہو اس پر كسى اور كو مقدم مت كريں.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ سب كے حالات كى اصلاح فرمائے.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ