باپ كے بے نماز وكيل نے نكاح كر ديا

ميرے عقد نكاح ميں والد صاحب نہيں آ سكتے تھے اس ليے انہوں نے ميرے تايا جان كو وكيل بنانے كا كہا سب سے بڑے تايا جان سفر پر گئے ہوئے تھے، ميرا عقد نكاح مسجد ميں ہوا جس ميں نكاح كى سارى شروط متوفر تھيں ولى اور گواہوں كى موجودگى ميں ايجاب و قبول ہوا اور نكاح على الاعلانيہ كيا گيا.
ليكن مجھے جو چيز پريشان كر رہى ہے وہ يہ ہے كہ ميرا وكيل يعنى ميرے تايا جان نماز ادا نہيں كرتے، وہ مسلمان تو ہيں اور نماز جمعہ كى ادائيگى كرتے اور رمضان المبارك كے روزے ركھتے ہيں، ا نكى بيوى باپردہ اور نمازى ہے، ليكن وہ يہ الفاظ كہتے ہيں ٹھيك ہے ميں نماز ادا نہيں كرتا ليكن ميں بہتر ہوں، كچھ لوگ نماز ادا كر كے بھى گناہ كرتے رہتے ہيں.
ميرا سوال يہ ہے كہ آيا كيا يہ چيز نكاح اور اس كے نتيجہ ميں ہونے والے دخول اور معاشرت زوجيہ اور حيات زوجيہ پر اثرانداز ہو گى يا نہيں، كيونكہ كچھ علماء كرام نے تو بےنماز كو دين اسلام سے خارج اور كافر قرار ديا ہے، اور پھر ولى اور وكيل كے ليے تو مسلمان ہونا شرط ہے ؟

الحمد للہ:

اول:

نكاح ولى يا اس كا نائب ہى كر سكتا ہے اس كے علاوہ كسى اور كو نكاح كرنے كا حق نہيں؛ كيونكہ حديث سے يہى ثابت ہے.

ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1101 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1881 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس عورت نے بھى اپنے ولى كى اجازت كے بغير نكاح كيا تو اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے "

مسند احمد حديث نمبر ( 24417 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2709 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اس ليے جمہور علماء كرام كے ہاں عورت اپنا نكاح خود نہيں كر سكتى، اور نہ ہى وہ اپنے نكاح كے ليے كسى دوسرے كو وكيل بنا سكتى ہے، اس ليے عورت كا نكاح يا تو ولى خود كرےگا يا پھر جسے ولى وكيل بنا دے.

بعض ممالك اور علاقوں ميں عقد نكاح كرنے والا يہ كہتا ہے كہ: ميں نے اپنى مؤكلہ كا نكاح تيرے ساتھ كيا يعنى جس عورت نےمجھے وكيل بنايا ہے اس كا نكاح تيرے ساتھ كيا، تو يہ احناف كے مسلك پر مبنى ہے.

كيونكہ احناف عورت كو خود بخود نكاح كرنےكى اجازت ديتے ہيں، اور وہ ولى كى شرط نہيں لگاتے، ليكن ان كا يہ قول جمہور علماء كرام كے قول اور پھر يہى نہيں بلكہ صحيح احاديث كے بھى خلاف ہے جو اوپر بيان كى جا چكى ہيں.

چنانچہ صورت مسئولہ ميں يعنى جس كے متعلق سوال كيا گيا ہے اس ميں يہ تايا ولى يعنى لڑكى كے باپ كا وكيل تھا نہ كہ بيوى كا وكيل.

دوم:

علماء كرام كا اجماع ہے كہ نماز سے انكار كرتے ہوئے تارك نماز شخص كافر ہے، ليكن اگر وہ سستى و كاہلى كے ساتھ نماز ترك كرتا ہے تو اس كےكفر ميں علماء كرام اختلاف كرتے ہيں، ليكن راجح يہى ہے جس پر كتاب و سنت كے دلائل اور صحابہ كرام كے اقوال دلالت كرتے ہيں كہ وہ بھى كافر ہے.

اس بنا پر تارك نماز شخص مسلمان عورت كا عقد نكاح ميں ولى نہيں بن سكتا.

اور جوشخص صرف نماز جمعہ ادا كرتا ہو اور رمضان المبارك ميں نماز ادا كرے باقى ايام ميں نماز ترك كرتا ہو تو يہ چيز اسے كافر ہونے ميں مانع نہيں ہوگى بلكہ راجح قول كے مطابق وہ تارك نماز ہى شمار كيا جائيگا، جيسا اوپر بيان بھى كيا جا چكا ہے، مزيدتفصيل معلوم كرنےكےليے آپ سوال نمبر ( 2182 ) اور ( 5208 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

اس كا يہ دعوى كہ وہ بعض نمازيوں سے اچھا اور بہتر ہے اسے كے كافر ہونے ميں كوئى فائدہ نہيں دےگا بلكہ وہ كافر ہى رہے گا، كفر سے بڑھ كر اور كيا گناہ ہو سكتا ہے، اسے دين اسلام كے ركن اور اہم ستون نماز سے كونسى چيز روك رہى ہے حالانكہ كافر اور مسلمان كےمابين تو فرق كرنے والى چيز ہى نماز ہے؟!

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اہل علم كے اجماع كے مطابق كافر شخص كو مسلمان پركسى بھى حالت ميں ولايت حاصل نہيں ہوتى، ان ميں امام شافعى اور امام مالك اور ابو عبيد اور اصحاب الرائ شامل ہيں.

اور ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں: ہم نے جن اہل علم سے علم حاصل كيا ہے ان سب كا اس پر اجماع ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 9 / 377 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" اگر كوئى شخص نماز ادا نہيں كرتا تو اس كے ليے اپنى بيٹيوں ميں سے كسى كا بھى ولى بن كرنكاح كرنا حلال نہيں، اور اگر وہ ولى بن كرنكاح كر بھى دے تو يہ نكاح فاسد ہوگا؛ كيونكہ مسلمان عورت كے ولى كے ليے مسلمان ہونا شرط ہے " انتہى

ماخوذ از: فتاوى نور على الدرب.

رہا يہ مسئلہ كہ اگر ولى يعنى والد كسى شخص كو نكاح كے ليے وكيل بنائے تو بعض علماء كرام اس وكيل كے ليے بھى مسلمان ہونے كى شرط لگاتے ہيں، ليكن بعض علماء كرام نے مسلمان ہونے كى شرط نہيں لگائى، كيونكہ وہ تو صرف ولى كى جانب سے وكيل ہے وہ خود ولى نہيں.

امام شافعى رحمہ اللہ كتاب الام ميں رقمطراز ہيں:

" كسى شخص كا كسى دوسرے شخص كو عقد نكاح ميں وكيل بنانا جائز ہے، ليكن وہ كسى عورت يا كافر شخص كو كسى مسلمان عورت كے عقد نكاح كا ولى نہ بنائے، كيونكہ ان دونوں ميں سے كوئى ايك بھى كسى بھى حالت ميں ولى نہيں بن سكتا " انتہى

ديكھيں:الام ( 5 / 21 ).

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جو شخص كسى چيز ميں خود تصرف كرنے كا مالك نہيں ہو تو وہ اس چيز ميں وكيل بھى نہيں بنايا جا سكتا، مثلا كسى عورت كو عقد نكاح ميں وكيل بنانا يا قبول كرنے ميں، اور كسى كافر شخص كو مسلمان عورت كے نكاح ميں، اور اسى طرح مجنون اور پاگل اور بچے كو سارے حقوق ميں " انتہى

اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" شافعيہ اور حنابلہ كے ہاں كسى بھى مسلمان شخص كے ليے كسى عورت سے عقد نكاح كرنے كے ليے كسى كافر كو وكيل بنانا صحيح نہيں؛ كيونكہ ذمى اور كافر شخص يہ عقد نكاح اپنے ليے كرنے كا مالك نہيں تو پھر اس ميں وكيل بننا ميں جائز نہيں ہے.

احناف اور مالكيہ كہتے ہيں كہ: يہ وكالت صحيح ہے؛ كيونكہ وكيل بننے كے ليے شرط يہ ہے كہ وكيل كو جس ميں وكيل بنايا جا رہا ہے وہ خود اپنے ليے كر سكتا ہو تو پھر وكيل بن سكتا ہے، اور پھر وكيل عاقل ہو چاہے مسلمان ہو يا غير مسلم " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 7 / 133 ).

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص نے كسى ذمى شخص كو اپنے ليے مسلمان عورت سے نكاح قبول كرنے كا وكيل بنا ديا تو كيا يہ نكاح صحيح ہو گا يا نہيں ؟

شيخ الاسلام رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" الحمد للہ رب العالمين:

اس مسئلہ ميں اختلاف پايا جاتا ہے، قبول نكاح ميں وكيل اس شخص كو بنايا جائيگا جو خود اپنے ليے نكاح قبول كر سكتا ہو، اس ليے اگر كسى عورت كو يا پھر پاگل اور مجنون يا غير مميز بچے كو وكيل بنا ديا جائے تو يہ جائز نہيں ہو گا ....

رہا نكاح قبول كرنے كے ليے كسى ذمى اور كافر كو وكيل بنانا تو علماء كرام كا اس ميں اختلاف پايا جاتا ہے، كچھ علماء كرام نے جائز كہا ہے وہ كہتے ہيں كہ: علماء كا اتفاق ہے كہ يہاں ملكيت خاوند كے ليے حاصل ہوگى نہ كہ وكيل كو.. لہذا كسى ذمى كو وكيل بنانا بالكل اسى طرح ہے كہ عورت كى شادى كرنےكے ليے اس كے كسى محرم شخص كو مثلا عورت كے ماموں كو وكيل بنا ديا جائے، تو مؤكل كے ليے قبول نكاح ميں اسے وكيل بنانا جائز ہے، اگرچہ اس كے ليے اس عورت سے خود نكاح كرنا جائز نہيں.

اسى طرح ذمى كو كسى مسلمان شخص كے نكاح ميں وكيل بنانا بھى چاہے اس كے ليے كسى مسلمان عورت كا نكاح كرنا جائز نہيں، ليكن احتياط اسى ميں ہے كہ اس مسئلہ ميں اختلاف ہونے كے پيش نظر ايسا نہ كيا جائے...

ليكن اس كے باوجود يہ ظاہر نہيں ہوتا كہ نكاح باطل ہو گا، كيونكہ اس كے باطل ہونے كى كوئى شرعى دليل نہيں " انتہى مختصرا

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 3 / 123 ).

اس بنا پر ہميں تو يہى ظاہر ہوتا ہے باقى واللہ اعلم يہ نكاح صحيح ہے، كيونكہ دلائل اسى پر دلالت كرتے ہيں كہ مسلمان عورت كا ولى مسلمان ہونا چاہيے، ليكن ولى كے وكيل كے بارہ ميں كوئى واضح دليل نہيں كہ اس كے ليے بھى مسلمان ہونا شرط ہے.

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ