عقد نكاح ميں چار عورتوں كى گواہى كافى نہيں ہوگى
چار عورتوں كى گواہى ميں عقد نكاح كا حكم كيا ہے ؟
ايسا نكاح كرنے والے كا خيال تھا كہ دو عورتوں كى گواہى ايك مرد كے برابر ہے تو چار عورتيں دو مردوں كے برابر ہونگى، اور چار عورتوں كى گواہى ميں لڑكى كے والدين كى رضامندى سے نكاح كر ليا، ليكن وہ دونوں نكاح كے وقت موجود نہيں تھے، كيا يہ نكاح صحيح ہے يا نہيں، اوراگر صحيح نہيں تو كيا كرنا چاہيے ؟
الحمد للہ:
جمہور علماء كرام كے ہاں نكاح صحيح ہونے كے ليے دو مسلمان عادل گواہوں كا ہونا شرط ہے، نكاح ميں عورتوں كى گواہى سے نكاح صحيح نہيں ہوگا، چاہے چاروں عورتيں ہو يا پھر دو عورتيں اور ايك مرد.
كيونكہ صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ:
عمران اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ولى اور دو عادل گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا "
اسے امام بيہقى نے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 7557 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نخعى اوزاعى اور امام شافعى كے قول كے مطابق ايك مرد اور دو عورتوں كى گواہى سے نكاح نہيں ہو گا "
امام زہرى رحمہ اللہ كا قول ہے:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ سنت چلى آ رہى ہے كہ حدود اور نكاح اور طلاق ميں عورتوں كى گواہى جائز نہيں "
اسے ابو عبيد نے " الاموال ميں نقل كيا ہے " انتہى مختصرا
ديكھيں: المغنى ( 7 / 8 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام نے بھى يہى قول اختيار كرتے ہوئے كہا ہے:
" عقد نكاح ميں عورت كے ولى اور خاوند كا آپس ميں عقد نكاح پر گواہ بنائے بغير شادى كرنے پراتفاق كافى نہيں ہوگا، اور اگر دونوں كى جانب سے ايجاب و قبول ہو بھى گيا تو عقد نكاح كے وقت دو عادل گواہ بنانا ضرورى ہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ولى اور دو عادل گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا " انتہى
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 182 ).
ليكن احناف كا مذہب ہے كہ ايك مرد اور دو عورتوں كى گواہى ميں عقد نكاح صحيح ہے "
ديكھيں: بدائع الصنائع ( 2 / 255 ).
اور كچھ آئمہ كرام مثلا امام مالك كا كہنا ہے كہ اعلان نكاح واجب ہے نہ كہ گواہى، اس ليے جب اعلان نكاح ہو جائے اور لوگوں كو نكاح كا علم ہو جائے تو يہ نكاح صحيح ہے چاہے اس پر گواہ بنائے گئے ہوں يا نہ بنائے گئے ہوں.
قديم علماء كرام ميں سے شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اور معاصرين ميں سے ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن تيميہ ( 32 / 127 ) اور الاختيارات ( 210 ) اور الشرح الممتع ( 12 / 94 ).
انہوں نے گواہوں كى شرط والى احاديث كو ضعيف قرار ديا ہے، لہذا اس قول كى بنا پر اگر نكاح كا اعلان ہوا اور لوگوں كو اس نكاح كا علم ہو چكا ہے تو يہ صحيح ہے.
ليكن احتياط يہى ہے كہ اس سلسلہ ميں وارد شدہ احاديث كے صحيح ہونے كے احتمال اور جمہور علماء كرام كے قول كا خيال كرتے ہوئےدو گواہوں كى موجودگى ميں نكاح دوبارہ كر ليا جائے، اور اس ليے بھى كہ يہ معاملہ بہت خطرناك معاملے يعنى نكاح سے تعلق ركھتا ہے.
تنبيہ:
آپ كے سوال ميں وارد ہے كہ: بيوى كا والد موجود نہيں تھا، اگر والد نے اپنى بيٹى كے نكاح كے ليے كسى دوسرے كو وكيل بنايا تھا تو يہ نكاح صحيح ہے، كيونكہ عورت اپنا نكاح خود نہيں كر سكتى، بلكہ احاديث كى روشنى ميں جمہور علماء كرام كے قول كے مطابق عورت كا ولى يا پھر ولى كا وكيل نكاح كرے، اس ميں يہ علم كافى نہيں كہ ولى نكاح پر رضامند ہے.
اور اگر ولى يا پھر اس كا وكيل نكاح ميں موجود نہ ہو تو يہ نكاح صحيح نہيں، بلكہ اس صورت ميں تجديد نكاح ضرورى ہے.
مزيد تفصيلات معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 97117 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ