مستقل طور پر نكاح مسجد ميں كرنا اور نكاح كى ابتدا قرآن كى تلاوت اور وعظ و نصيحت سے كرنا
مندرجہ ذيل طريقہ سے مسجد ميں نكاح كرنے كا حكم كيا ہے:
نكاح سے قبل تلاوت كى جائے اور پھر ايك شخص وعظ و نصيحت كرے، كيا ايسا كرنا صحيح ہے ؟
الحمد للہ:
اول:
جمہور فقھاء كرام نے مسجد ميں نكاح كرنے كو مستحب قرار ديا ہے، اور اس كى دليل ميں ايك حديث پيش كى ہے ليكن يہ ضعيف ہے:
" اس نكاح كا اعلان كرو، اور اسے مسجد ميں كيا كرو اور نكاح ميں دف بجايا كرو "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1089 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ضعيف ترمذى ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے، ليكن اعلان نكاح كرنا چاہيے.
مجمع الانھر ميں درج ہے:
" عقد نكاح مسجد ميں كرنا مستحب ہے، اور جمعہ كے روز نكاح كرنے اور اس روز رخصتى ميں اختلاف ہے، ليكن اختيار يہى ہے كہ مكروہ اس وقت ہوگا جب اس ميں كوئى دينى فساد اور خرابى پائى جائے " انتہى
ديكھيں: مجمع الانھر ( 1 / 317 ).
اور خرشى نے شرح خليل ميں لكھا ہے:
" يعنى عقد نكاح مجرد ايجاب و قبول جائز ہے، بلكہ مستحب ہے " انتہى
ديكھيں: شرح خليل ( 7 / 71 ).
اور نھايۃ المحتاج ميں درج ہے:
" شوال ميں نكاح اور رخصتى كرنا، اور نكاح مسجد ميں كرنا مسنون ہے، اور عقد نكاح لوگوں كى ايك جماعت اور صبح كے وقت ہونا چاہيے " انتہى
ديكھيں: نھايۃ المحتاج ( 6 / 185 ).
اور كشاف القناع ميں درج ہے:
" اس ميں عقد نكاح مباح ہے، بلكہ جيسا كہ بعض اصحاب نے بيان كيا ہے مستحب ہے " انتہى
ديكھيں: كشاف القناع ( 2 / 368 ).
دوم:
مسجد ميں عقد نكاح كے ليے شرط ہے كہ ايسا كرنے سے مسجد كى حرمت كى پامالى نہ ہو، اور وہاں كوئى برا اور غلط كام بھى نہ كيا جائے، مثلا دف بجانا، اور اسى طرح وہاں اشعار اور غزل بھى نہ پڑھيں جائيں، بلكہ صرف عقد نكاح ہى پر اكتفا كيا جائے.
اور اگر قرآن مجيد كى تلاوت ہو يا پھر كوئى شخص وعظ و نصيحت كرے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس پر ہميشگى نہيں كرنى چاہيے؛ كيونكہ نكاح وغيرہ كى تقريب ميں قرآن مجيد پڑھنے كى كوئى دليل نہيں ملتى، بلكہ بعض اہل علم نے تو اسے بدعت ميں شمار كيا ہے.
شيخ عبد الرزاق عفيفى رحمہ اللہ سے شادى وغيرہ كى دوسرى تقريبات ميں بلند آواز سے قرآن مجيد پڑھنے كا حكم دريافت كيا گيا كہ آيا يہ بدعات شمار ہوتى ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
" يہ بدعات ميں شامل ہے كہ اجلاس كو رسما تلاوت قرآن مجيد سے شروع كيا جائے، كيونكہ اس كى كوئى نص اور دليل نہيں ملتى، لہذا اسے عادت نہيں بنانا چاہيے، ليكن بعض اوقات ايسا كرنا جائز ہے، جب كبار علماء كميٹى كے اجلاس كى كاروائى قرآن مجيد كى تلاوت سے شروع كى گئى تو ميں نے ان كى مخالفت كرتے ہوئے عرض كيا تھا:
يہ بدعت ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايسا ثابت نہيں ہے، حالانكہ آپ بہت زيادہ اجلاس كرتے اور مجلسيں بہت زيادہ ہوتى تھيں، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو امام ہيں جن كى اقتداء كى جاتى ہے.
ليكن اگر نصيحت آيات قرآنى پر مشتمل ہو تو پھر اس ميں كوئى حرج نہيں " انتہى
ماخوذ از: فتاوى و رسائل الشيخ عبد الرزاق عفيفى ( 621 ).
واللہ اعلم.
الحمد للہ:
اول:
جمہور فقھاء كرام نے مسجد ميں نكاح كرنے كو مستحب قرار ديا ہے، اور اس كى دليل ميں ايك حديث پيش كى ہے ليكن يہ ضعيف ہے:
" اس نكاح كا اعلان كرو، اور اسے مسجد ميں كيا كرو اور نكاح ميں دف بجايا كرو "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1089 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ضعيف ترمذى ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے، ليكن اعلان نكاح كرنا چاہيے.
مجمع الانھر ميں درج ہے:
" عقد نكاح مسجد ميں كرنا مستحب ہے، اور جمعہ كے روز نكاح كرنے اور اس روز رخصتى ميں اختلاف ہے، ليكن اختيار يہى ہے كہ مكروہ اس وقت ہوگا جب اس ميں كوئى دينى فساد اور خرابى پائى جائے " انتہى
ديكھيں: مجمع الانھر ( 1 / 317 ).
اور خرشى نے شرح خليل ميں لكھا ہے:
" يعنى عقد نكاح مجرد ايجاب و قبول جائز ہے، بلكہ مستحب ہے " انتہى
ديكھيں: شرح خليل ( 7 / 71 ).
اور نھايۃ المحتاج ميں درج ہے:
" شوال ميں نكاح اور رخصتى كرنا، اور نكاح مسجد ميں كرنا مسنون ہے، اور عقد نكاح لوگوں كى ايك جماعت اور صبح كے وقت ہونا چاہيے " انتہى
ديكھيں: نھايۃ المحتاج ( 6 / 185 ).
اور كشاف القناع ميں درج ہے:
" اس ميں عقد نكاح مباح ہے، بلكہ جيسا كہ بعض اصحاب نے بيان كيا ہے مستحب ہے " انتہى
ديكھيں: كشاف القناع ( 2 / 368 ).
دوم:
مسجد ميں عقد نكاح كے ليے شرط ہے كہ ايسا كرنے سے مسجد كى حرمت كى پامالى نہ ہو، اور وہاں كوئى برا اور غلط كام بھى نہ كيا جائے، مثلا دف بجانا، اور اسى طرح وہاں اشعار اور غزل بھى نہ پڑھيں جائيں، بلكہ صرف عقد نكاح ہى پر اكتفا كيا جائے.
اور اگر قرآن مجيد كى تلاوت ہو يا پھر كوئى شخص وعظ و نصيحت كرے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس پر ہميشگى نہيں كرنى چاہيے؛ كيونكہ نكاح وغيرہ كى تقريب ميں قرآن مجيد پڑھنے كى كوئى دليل نہيں ملتى، بلكہ بعض اہل علم نے تو اسے بدعت ميں شمار كيا ہے.
شيخ عبد الرزاق عفيفى رحمہ اللہ سے شادى وغيرہ كى دوسرى تقريبات ميں بلند آواز سے قرآن مجيد پڑھنے كا حكم دريافت كيا گيا كہ آيا يہ بدعات شمار ہوتى ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
" يہ بدعات ميں شامل ہے كہ اجلاس كو رسما تلاوت قرآن مجيد سے شروع كيا جائے، كيونكہ اس كى كوئى نص اور دليل نہيں ملتى، لہذا اسے عادت نہيں بنانا چاہيے، ليكن بعض اوقات ايسا كرنا جائز ہے، جب كبار علماء كميٹى كے اجلاس كى كاروائى قرآن مجيد كى تلاوت سے شروع كى گئى تو ميں نے ان كى مخالفت كرتے ہوئے عرض كيا تھا:
يہ بدعت ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايسا ثابت نہيں ہے، حالانكہ آپ بہت زيادہ اجلاس كرتے اور مجلسيں بہت زيادہ ہوتى تھيں، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو امام ہيں جن كى اقتداء كى جاتى ہے.
ليكن اگر نصيحت آيات قرآنى پر مشتمل ہو تو پھر اس ميں كوئى حرج نہيں " انتہى
ماخوذ از: فتاوى و رسائل الشيخ عبد الرزاق عفيفى ( 621 ).
واللہ اعلم.
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ