پڑوسن كے بيٹے يا اپنے خاوند كى بيٹى كے خاوند كے ساتھ سفر كرنا
ايك عورت حج كى ادائيگى كے ليے جانا چاہتى ہے، حالانكہ وہ فرضى حج ادا كر چكى ہے، اس كے ساتھ اس كى گود ميں پلنے والى بچى اور اس كا خاوند بھى جائيگا تو كيا يہ اس كے ليے محرم شمار ہو گا يا نہيں، اور كيا اس كے ساتھ سفر كرنا جائز ہے يا نہيں ؟
اس كے علاوہ ايك اور حالت اور صورت يہ ہے كہ ايك عورت اپنے بيٹے كے ساتھ حج كے ليے جانا چاہتى ہے اور اس كے ساتھ اس كى پڑوسن بھى جائيگى تو كيا ايسا كرنا جائز ہے، يہ علم ميں رہے كہ پڑوسن اس كے بيٹے كے ليے محرم نہيں ہے ؟
الحمد للہ:
اول:
عورت پر حج فرض ہونے كے ليے محرم كا ہونا شرط ہے جو اس كے ليے حج پرجائے كيونكہ صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" عورت محرم كے بغير سفر نہ كرے، اور اگر اس كا كوئى محرم مرد پاس نہ ہو تو كوئى اجنبى مرد اس كے پاس مت آئے تو ايك شخص عرض كرنے لگا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: ميں فلاں جنگ اور غزوہ ميں جانا چاہتا ہوں اور ميرى بيوى حج كرنا چاہتى ہے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم اس كے ساتھ حج پر جاؤ "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1862 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1341 ).
بعض اہل علم نے فرضى حج كے ليے عورت كو اجازت دى ہے كہ قابل اعتماد عورتوں يا امن اوروثوق والے قافلہ كے ساتھ بغير محرم سفر كر سكتى ہے، ليكن يہ قول مرجوح ہے راجح قول يہى ہے كہ اس كے ليے محرم كا ہونا ضرورى ہے، چاہے حج فرضى ہو يا نفلى.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 316 ) اور ( 47029 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
شائد سائل كا يہاں پرورش ميں پلنے والى بچى سے مراد مسئولہ عورت كے خاوند كى بيٹى كا خاوند ہے.
اس كا جواب يہ ہے كہ:
يہ خاوند اس عورت كا محرم نہيں، اس ليے اس كے ساتھ سفر كرنا جائز نہيں ہے.
اور درج ذيل آيت ميں جو ربيبہ وارد ہے:
اور تمہارى پرورش ميں موجود لڑكياں جو تمہارى گود ميں ہيں تمہارى ان بيويوں سے جن سے تم دخول كر چكے ہو النساء ( 23 ).
اس سے مراد آدمى كى بيوى كى وہ بيٹى ہے جو كسى اور خاوند سے ہو، اسے ربيبہ اس ليے كہا گيا ہے كہ وہ اس كى گود ميں پرورش پا رہى ہے... اور فقھاء كرام اس پر متفق ہيں كہ ربيبہ اپنى ماہ كے خاوند پر حرام ہے جب مرد نے اس كى ماں سے دخول كر ليا ہو چاہے وہ ربيبہ اس كى گود ميں پرورش نہ بھى كر رہى ہو"
ديكھيں: تفسير القرطبى ( 5 / 101 ).
سوم:
عورت كے ليے اپنى پڑوسن كے ساتھ بغير محرم سفر كرنا جائز نہيں، اور پڑوسن كا بيٹا اس كے ليے محرم نہيں ہے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كيا عورت كو حق حاصل ہے كہ اگر اس كے ساتھ خاندان كا كوئى مرد نہ جا سكتا ہو يا اس كا والد فوت شدہ ہو تو وہ قابل اعتماد اور بھروسہ والى ثقہ عورتوں كے ساتھ حج كے ليے چلى جائے ؟
كيا عورت كو حق حاصل ہے كہ وہ اپنى والدہ يا خالہ يا پھوپھى كے ساتھ يا كسى اور مرد كو بطور محرم اختيار كر كے فريضہ حج كے ليے جائے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" صحيح يہى ہے كہ اس كے اپنے خاوند يا محرم مرد كے بغير حج كا سفر كرنا جائز نہيں، اس ليے وہ قابل اعتماد عورتوں يا غير محرم ثقہ مردوں يا اپنى پھوپھى يا خالہ يا والدہ كے ساتھ فريضہ حج كے ليے نہيں جا سكتى، بلكہ اس كے ليے اس كے ساتھ خاوند يا كوئى اور محرم مرد ہونا ضرورى ہے.
اور اگر اس كو كوئى محرم مرد نہيں ملتا جو اس كے ساتھ حج پر جا سكے تو جب تك اس كى يہ حالت ہے اس پر حج فرض نہيں ہوتا، كيونكہ شرعى استطاعت كى شرط مفقود ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اللہ كے ليے لوگوں بيت اللہ كا حج كرنا فرض كر ديا گيا ہے جو اس تك پہنچنے كى استطاعت ركھتا ہے . انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 91 ).
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ