حج كى ادائيگى مہر مقرر كيا گيا ليكن رخصتى كے بعد طلاق دے دى تو مہر كيسے ادا كيا جائيگا ؟
ميں ايك عرب ملك سے تعلق ركھتا اور يورپ ميں رہائش پذير ہوں، ميرا يورپين مسلمان لڑكى سے تعارف ہوا اور ميں نے رمضان المبارك ميں اس سے شادى كر لى، لڑكى نے بطور مہر حج پر جانے كا مطالبہ كيا، ليكن ہمارى يہ شادى صرف دو يوم تك ہى رہى.
ہمارى عليحدگى كا سبب يہ تھا كہ ميں اس كى جنسى رغبت پورى نہيں كر سكا، كيونكہ ميرے اندر اس كى درايت نہ تھى اور پھر جنسى ثقافت كى بھى كمى تھى، پہلى اور دوسرى رات ہمارے درميان جو كچھ ہوا بيوى نے وہ سب كچھ اپنے دوست و احباب كو بتا ديا، جب ميں نے اس كے متعلق دريافت كيا تو اس نے مجھے گھر سے نكال باہر كيا، بعد ميں انكشاف ہوا كہ وہ نہ تو رمضان ميں روزے ركھتى تھى، بلكہ منگنى كے دوران اس كے ايك دوست سے تعلقات بھى قائم تھے اور اس سے زنا كى بھى مرتكب ہوئى ہے.
ميرا سوال يہ ہے كہ آيا ميرے ليے اسے اس كا مہر دينا جائز ہے ، يا كہ ميں اسے حج كے اخراجات ادا كروں يا اس سے معاملہ ميں تجاہل اختيار كر لوں، اس سلسلہ ميں مجھے كوئى نصيحت فرمائيں ؟
الحمد للہ:
اول:
اگر آپ نے بيوى كو رخصتى و دخول كے بعد طلاق دى ہے تو آپ كے ليے اسے پورا مہر دينا لازم ہے؛ جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ تو تم ان سے جو فائدہ اٹھاؤ تو تم انہيں ان كے مقرر شدہ مہر ادا كرو }.
اور ايك دوسرے مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:
{ اور عورتوں كو ان كے مہر خوشدلى سے ادا كر دو }.
اور ايك مقام پر فرمان بارى تعالى اس طرح ہے:
{ اور اگر تم كسى بيوى كى جگہ اور بيوى بدل كر لانے كا ارادہ كرو اور تم ان ميں سے كسى ايك كو خزانہ دے چكے ہو تو اس ميں سے كچھ بھى واپس نہ لو، كيا تم اسے بہتان لگا كر اور صريح گناہ كر كے لوگے، اور تم كيسے لو گے جب كہ تم ايك دوسرے سے صحبت كر چكے ہو وہ تم سے پختہ عہد لے چكى ہيں }النساء ( 19 ـ 20 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 2378 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
دوم:
عورت سے شادى كا حج يا عمرہ بطور مہر مقرر كرنے ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، مالكى حضرات اسے جائز قرار ديتے ہيں، اس ليے اگر آپ كے ملك سے حج كے اخرجات ميں كوئى بڑا فرق نہيں يعنى سب كمپنياں تقريبا ايك ہى ريٹ ركھتى ہيں اور اس كے اخراجات معلوم ہيں تو آپ كے ليے اتنا خرچ بيوى كو دينا لازم ہے.
اور اگر اس ميں اچھا خاصہ فرق ہے تو پھر اس صورت ميں بيوى كو مہر مثل دينا ہوگا، يعنى آپ اسے اس كے علاقے كى عورتوں جتنا مہر ادا كريں گے.
سوم:
اس عورت نے رمضان المبارك ميں روزے نہ ركھ كر اور زنا ( اگر زنا ثابت ہو جائے ) كر كے جو گناہ كا ارتكاب كيا ہے يہ بہت بڑى فحاشى اور گناہ كبيرہ ہے، ليكن ايسا كرنے سے وہ حق مہر سے محروم نہيں ہو جائيگى، ايك شخص نے اپنى بيوى پر زنا كى تہمت لگائى تو لعان كے ذريعہ ان كے مابين علحيدگى كر دى گئى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:
" تم دونوں كا حساب اللہ پر، تم دونوں ميں سے ايك جھوٹا ہے، اور تمہيں اس عورت پر كوئى راہ حاصل نہيں "
تو وہ شخص كہنے لگا: ميرا مال ؟
يعنى ميں نے اسے مہر ميں جو مال ادا كيا تھا وہ كہا جائيگا ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تمہيں كوئى مال نہيں ملےگا؛ اگر تم اپنى اس بات ميں سچے تھے تو يہ مال اس كى شرمگاہ حلال كرنے كى بنا پر تھا، اور اگر تم نے اس پر جھوٹا بہتان لگايا ہے تو يہ اور بھى زيادہ بعيد ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5312 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1493 ).
امام نووى رحمہ اللہ كى اس شرح ميں لكھتے ہيں:
اس ميں دخول و رخصتى سے مہر كے استقرار و جوب كى دليل پائى جاتى ہے، اور جس مدخولہ عورت سے لعان كيا جائے اس كے ليے بھى مہر كى ادائيگى يہ دليل بنتى ہے، ان دونوں مسئلوں پر علماء كرام متفق ہيں:
اس حديث ميں يہ بھى پايا جاتا ہے كہ: اگر عورت نے اس كى تصديق كرتے ہوئے گناہ كا اقرار بھى كر ليا تو بھى مہر ساقط نہيں ہوگا " انتہى
ديكھيں: شرح صحيح مسلم ( 10 / 126 ).
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان:
" تو يہ اس كے عوض ميں ہے جو آپ نے اس كى شرمگاہ حلال كى ہے "
سے يہ نكلتا ہے كہ اگر لعان كرنے والى عورت لعان كے بعد اپنے آپ كو جھٹلا كر زنا كا اقرار بھى كر لے تو اس پر حد واجب ہوگى؛ ليكن اس سے اس كا مہر ساقط نہيں ہو جائيگا " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 457 ).
چہارم:
اگر آپ نے ابھى اسى طلاق نہيں دى اور بيوى كا انحراف اور فحاشى آپ كے سامنے واضح ہوچكى ہے تو آپ طلاق دينے ميں جلد بازى سے كام نہ ليں؛ بلكہ اس كى طلاق آپ اس پر موقوف كريں كہ وہ اپنے مہر سے دستبردار ہو جائے يعنى وہ خلع حاصل كرے.
جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور تم انہيں اس ليے مت روكے ركھو كہ تم نے نہيں جو كچھ ديا ہے اس ميں سے كچھ لے لو، مگر اس صورت ميں كہ وہ واضح و كھلى بےحيائى كا ارتكاب كريں }.
اور زناكارى واضح و كھلى بےحيائى و فحاشى ہے.
اس ليے اگر عورت زنا كا ارتكاب كرتى ہے تو خاوند كو بيوى پر تنگى كرنے كا حق حاصل ہے كہ وہ خاوند سے خلع حاصل كرے، اور اسے ادا كردہ پورارمہر واپس حاصل كرے.
ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 2 / 241 ) تفسير السعدى ( 1 / 172 ).
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس ليے اگر بيوى واضح فحاشى و بے حيائى كا ارتكاب كرے تو خاوند كو حق حاصل ہے كہ وہ اس پر طلاق مت دے اور اس پر تنگى كرے تا كہ عورت خود فديہ دے كر اپنى جان چھڑائے، امام احمد نے يہى بيان كيا ہے؛ كيونكہ عورت نے زنا كر كے خلع كا مطالبہ كيا ہے، اور نكاح كو خراب كرنے كى كوشش كى ہے؛ اس ليے خاوند كا ايسى بيوى كے ساتھ توبہ كيے بغير رہنا ممكن نہيں، اور نہ ہى صرف زنا كے ساتھ مہر ساقط ہوتا ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 15 / 320 ).
پنجم:
جب تك دو عادل گواہوں يا پھر بيوى كى جانب سے صريح اعتراف كے ساتھ زنا كا ارتكاب ثابت نہ ہو جائے آپ اس عورت پر زنا كے ارتكاب كى تہمت نہيں لگا سكتے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 94893 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ