رضامندى كے ساتھ بيوى سے طويل عرصہ تك تعلقات منقطع ركھے ہيں كيا بيوى طلاق كا مطالبہ نہ كر كے گنہگار ہوئى ہے ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس عورت نے بھى بغير كسى تنگى اور سبب كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "
ميرا سوال يہ ہے كہ چار برس سے خاوند سے عليحدہ رہنے والى بيوى كا حكم كيا ہے جو نہ تو مطلقہ ہے اور نہ ہى بيوى بن كر رہ رہى ہے، اور نہ ہى اپنے خاوند سے طلاق لينا چاہتى ہے كيونكہ وہ خاوند سے بہت زيادہ محبت كرتى ہے، اور اميد ركھتى ہے كہ اللہ اسے ہدايت دےگا اور وہ اسے واپس لے جائيگا، كيا ايسا كرنے پر وہ اپنے آپ يا پھر خاوند كے ليے گنہگار تو نہيں ہو رہى ؟
الحمد للہ:
اول:
شريعت اسلاميہ نے آدمى پر بہت بڑى ذمہ دارى ڈالى ہے كہ وہ اپنے خاندان اور گھر والوں كا خيال ركھے اور ان كى نگرانى كرے، اس ليے آدمى پر اپنے گھر كے واجبات كو پورا كرنے كى بہت بڑى ذمہ دارى عائد ہوتى ہے.
اس ذمہ دارى كا تقاضا ہے كہ وہ ہر وقت موجود ہو تا كہ وہ ہر چيز پر اطلاع حاصل كرتے ہوئے سب غلطيوں كا علاج كر سكے، اور اپنى اولاد كى راہنمائى كرے، كيونكہ وہ اس گھر كى حفاظت كرنے والا اور اس كى بنياد و سہارا ہے.
مرد كا اپنى ذمہ دارى پورى نہ كرنا اور اس سے تجاہل برتنے كے باعث عورت پر ظلم ہو سكتا ہے، اور پھر حديث قدسى ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
" اے ميرے بندوں يقينا ميں نے اپنے اوپر ظلم كو حرام كيا ہے اور اسے تمہارے مابين آپس ميں ظلم كرنے كو بھى قرار دے ديا ہے اس ليے تم آپس ميں ظلم مت كرو "
اس كى بنا پر خاندان اور گھر تباہى كى طرف جا سكتا ہے بلكہ اس عليحدگى اور تفريق كى بنا پر مرد و عورت ميں بہت زيادہ خرابى بھى پيدا ہو سكتى ہے، اور اس سے آگے بڑھ كر خاوند اور بيوى ميں سے ہر ايك خفيہ طور پر اپنا دوست اور عاشق و معشوق بنا سكتا ہے، كيونكہ شيطان اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے كمزورى كا فائدہ اٹھائيگا اور اسے گمراہى كى راہ پر لے جائيگا كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" شيطان انسان ميں اس طرح سرايت كر جاتا ہے جس طرح انسان ميں خون سرايت كيے ہوئے ہے "
اس ظلم پر مستزاد يہ بھى كہ اس طرح تو آپ كى اولاد پر بھى ظلم ہوگا، اور ان پر جو كمى و كوتاہى واقع ہوگى جس كى بنا پر عورت كى جدوجھد بڑھ كر اسے والد اور والدہ دونوں كى ذمہ دارى ادا كرنا پڑيگى، اور ا كثر طور پر عورت كے ليے ايسا كرنا ممكن نہيں ہوتا.
ہم سب كو خاندان ميں باپ كى ذمہ دارى كا علم ہے اور يہ بھى علم ركھتے ہيں كہ اگر وہ اپنى ذمہ دارى پورى نہ كرے تو پھر كيا خرابياں پيدا ہونگى يہ كسى سے مخفى نہيں، اور پھر اس ذمہ دارى كى عدم موجودگى ميں بچوں كى تربيت كيسے ہو گى، اور والد كے دور رہنے كى وجہ سے وہ كس طرح كى ديكھ بھال پا سكيں گے.
اس طرح وہ بچے اپنے والد كو ناپسند كرنے لگيں گے، كيونكہ ان كے والد نے انہيں چھوڑ ديا اور ان كى ديكھ بھال ويسى نہ كى جيسى كرنى چاہيے تھى.
دوم:
اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ خاوند اپنى بيوى كے ساتھ نہ چل سكتا ہو اور اپنى زندگى بسر نہ كر سكے، تو اس حالت ميں خاوند كے ليے مشروع ہے كہ يا تو وہ بيوى كو اچھے طريقہ سے اپنے نكاح ميں ركھے، اور يا پھر اچھے طريقہ سے اسے چھوڑ دے اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ وہ بيوى كو شديد ناپسند كرنے كى بنا پر اچھے طريقہ سے اپنے ساتھ نہ ركھ سكتا ہو يا پھر كسى اور سبب كے باعث تو اس حالت ميں صرف يہى ہے كہ وہ بيوى كو اچھے طريقہ سے عليحدہ كر دے، اور اسے اچھے طريقہ سے طلاق دے كر اسے اس كے پورے حقوق ادا كر كے فارغ كر دے.
اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ بيوى اپنے خاوند كے ساتھ رہنا پسند كرتى ہو كہ وہ اسے بيوى بنا كر ركھے، اور خاوند سے كہے كہ تم مجھے اپنے ساتھ ہى ركھو ليكن ميں اپنے كچھ حقوق سے دستبردار ہو جاتى ہوں، مثلا بارى كى تقسيم ـ يعنى بيوى كا حق ہے كہ وہ اس كے ہاں بھى رات بسر كرے ـ اور نفقہ و اخراجات سے بھى دستبردار ہو جاتى ہوں.
تو اس حالت ميں خاوند كو اپنى بيوى كا مطالبہ قبول كرتے ہوئے اسے اپنے نكاح ميں ہى ركھنا چاہيے، كيونكہ اس سے اس كى دلجوئى ہوگى اور وہ اپنے ساتھ حسن معاشرت كو نہيں بھولےگى خاص كر خاوند كو يہ تسليم كرنے ميں كوئى نقصان و ضرر بھى نہيں ہے.
اس جيسے معاملہ ميں ہى اللہ سبحانہ و تعالى نے درج ذيل فرمان نازل فرمايا:
{ اور اگر كسى عورت كو اپنے خاوند كى بددماغى اور بے پرواہى كا خوف ہو تو دونوں آپس ميں جو صلح كر ليں اس ميں كسى پر كوئى گناہ نہيں، اور صلح بہت بہتر چيز ہے، طمع و لالچ ہر ہر نفس ميں شامل كر دى گئى ہے، اگر تم اچھا سلوك كرو اور پرہيزگارى كرو تو تم جو كچھ كر رہے ہو اس پر اللہ تعالى پورى طرح خبردار ہے }النساء ( 128 ).
امام بخارى اور مسلم نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ يہ آيت كريمہ اس طرح كى حالت كے بارہ ميں ہى نازل ہوئى ہے:
ان كا بيان ہے:
اور اگر عورت كو اپنے خاوند كى بددماغى اور بےپرواہى كا خوف ہو .
يہ وہ عورت ہے جو اسے طلاق دينا چاہتا ہو اور اسے چھوڑ كر كسى دوسرى عورت سے شادى كرنا چاہے تو يہ عورت اسے كہے: تم مجھے ركھو اور طلاق مت دو، اور ميرے علاوہ كسى اور عورت سے بھى شادى كر لو، تم نہ تو مجھے نان و نفقہ دو اور نہ ہى ميرى بارى تقسيم كرو.
تو اللہ تعالى كا يہى فرمان ہے:
ان دونوں پر صلح كرنے ميں كوئى گناہ نہيں، اور صلح كرنا بہتر ہے .
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4910 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 3021 ).
خلاصہ يہ ہوا كہ:
آدمى كے ليے اتنى طويل مدت تك اپنى بيوى كو چھوڑے اور عليحدہ ركھنا حلال نہيں، اگر عورت حق پر ہے تو اسے اپنا معاملہ اور مقدمہ قاضى كے سامنے پيش كرنا چاہيے اور نقصان و ضرر سے بچنے كے ليے طلاق كا مطالبہ كرنا چاہيے.
اور اگر وہ صبر و تحمل اختيار كرتى ہے كہ اللہ تعالى اس كے خاوند كو ہدايت نصيب فرمائے اور وہ بيوى پر ظلم كرنے سے باز آ جائے تو ان شاء اللہ اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ اس ميں بيوى كو كسى فتنے كا سامنا نہ ہو كہ وہ خاوند سے دور رہ كر فتنہ كا شكار ہو جائے.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ سب مسلمانوں كے حالات كى اصلاح فرمائے اور ان كى راہنمائى كرے.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ