اگر بچہ مطلقہ ماں كى پرورش ميں ہو تو والد كو بچہ ديكھنے كا حق
ميں آپ كو بتانا چاہتى ہوں كہ ميرے خاوند نے مجھے اور ميرے چھوٹے بچے كو چھوڑ ديا ہے وہ كہتا ہے كہ ميں اس ملك ميں كام كاج كے ليے آيا ہوں نہ كہ كسى خاندان كى ديكھ بھال كرنے؛ ( پورى وضاحت كے ساتھ يہ كہ ميں نے تجھے استعمال كيا ہے اور اب مجھے تيرى كوئى ضرورت و حاجت نہيں!! ) اور چار برس سے اس نے اپنے بچے كو ايك بار بھى ديكھنے كى كوشش نہيں كى، ايك بار مجھے خدشہ ہوا كہ بچہ كسى موذى بيمارى كا شكار ہو رہا ہے تو ميں نے اسے فون كيا تو اس نے آنے كا وعدہ كيا ليكن آيا نہيں، ميں نے عدالت ميں جا كر اس كو اخراجات كى ادائيگى پر مجبور كيا كيونكہ وہ خرچہ دينے سے انكار كرتا تھا، اور طلاق كے پانچ برس بعد وہ شخص اپنے ملك چلا گيا اور جا كر اپنے چچا كى بيٹى سے شادى كر لى، اور وہ واپس برطانيہ آ چكا ہے اور اس كى بيوى اپنے ملك ميں ہى ہے.
اب چھ ماہ قبل اس نے كہيں سے ميرا نمبر حاصل كر كے مجھے تنگ كرنے لگا ہے اور مجھ سے بات چيت اس طرح كرتا ہے كہ وہ ميرا خاوند ہو، اور ميں جہاں جاؤں وہ ميرا پيچھا كرتا اور خيال ركھتا ہے، اور وہ كہتا ہے كہ وہ اب بھى اس سے رجوع كرنا چاہتا ہے، ميں نہيں مانتى كہ ميں نے جس شخص كے متعلق ايك نيك و صالح مسلمان ہونے كا گمان كيا تھا وہ اس طريقہ سے بات چيت كريگا حالانكہ اس نے ہميں چھوڑ ديا ہے اور مجھے طلاق دے كر ايك دوسرى عورت سے شادى بھى كر ركھى ہے اور اس كے باوجود وہ كسى طريقہ سے يہ كہنا چاہتا ہے كہ يہ اس كى غلطى تھى ( وہ ظاہر كرنا چاہتا ہے كہ دوسرى شادى كرنا اس كى غلطى تھى ) بہر حال مختصر يہ كہ ميں نے اس سے مصالحت سے انكار كر ديا، اور پوليس ميں رپورٹ كرائى كے اسے منع كريں.
اور اب وہ بچہ كو حاصل كرنے كے ليے مجھے عدالت ميں گھسيٹ رہا ہے، اس ليے كہ اس نے محسوس كر ليا ہے كہ ميں اس كو قبول كرنے سے انكار كر رہى ہوں، مجھے علم ہے كہ وہ اپنے بچے ميں تہمت نہيں لگا رہا بلكہ وہ يہ سب كچھ اس ليے كر رہا كہ ميں نے اس سے مصالحت كرنے سے انكار كر ديا ہے، ليكن ميں حقيقتا عدالت ميں جانے سے ڈرتى ہوں كيونكہ وہاں جا كر اخراجات ہونگے.... الخ
حالانكہ ميرے پاس وكيل بھى ليكن ميں اس سب سے بہت خوفزدہ ہوں، ميرا سوال يہ ہے كہ: وہ جو كچھ كر رہا ہے اسلام اس كے متعلق كيا كہتا ہے ؟
كيا اسے اپنے بچے كو ديكھنے سے روكنے ميں ميرى غلطى ہے، حالانكہ وہ چھوٹے بچے اور مجھے بھى خوفزدہ كرتا رہا ہے جب ہمارى شادى تھى ( الحمد للہ ميرے بيٹے كى عمر پانچ برس ہو چكى ہے ) اور پانچ برس سے كوئى اہتمام نہ تھا، مجھے يہ معلوم نہيں ہو رہا كہ ميں اس معاملہ كو كس طرح حل كروں، اور اسى طرح ميں كسى ايسے كام ميں نہيں پڑنا چاہتى جو اسلام ميں ممنوع ہو.
ليكن ميں بچے كى مصلحت والا كام كرنا چاہتى ہوں يعنى ميں اپنے بچے كو باپ سے نہيں ملنے دينا چاہتى اس ليے كہ وہ بہت غصہ والا ہے اور اس كو بچے كے متعلق كوئى اہميت نہيں اور اب وہ اسے بطور اسلحہ استعمال كر رہا ہے كہ ميں اس طرح اس كے قابو ميں آ جاؤں، حالانكہ وہ يہ سب كچھ كر چكا ہے تو كيا ميرے ليے كوئى شرعى حق ہے كہ ميں اس كو بچہ حاصل كرنے سے روك سكوں، وہ اپنے بچے كے ليے كوئى اچھا نمونہ نہيں بن سكتا، نہ ہى وہ اچھا اخلاق ركھتا ہے اور نہ ہى دين پر عمل كرتا ہے ؟
الحمد للہ:
بلاشك آپ نے اس شخص كے جو حالات بيان كيے ہيں اس سے تو يہى علم ہوتا ہے كہ وہ اپنے بيٹے كے ليے اخلاقى اور دينى طور پر نمونہ و قدوہ نہيں، اور نہ ہى وہ بچے كى تربيت و پرورش كرنے كا اہل ہے، ليكن يہ چيز اسے بچے كو ملنے اور ديكھنا حرام نہيں كرتى، بلكہ وقتا فوقتا وہ اس كو ديكھ سكتا اور مل سكتا ہے اور اسى طرح بيٹے كو بھى باپ كے ساتھ لازمى طور پر حسن سلوك كرنا ہو گا.
باپ كا بچے كى حقوق كى ادائيگى ميں كوتاہى كرنا اور زيادتى كرنے يا پھر اس كا ظالم و جابر ہونے كا مطلب يہ نہيں كہ بيٹا بھى اس كو چھوڑ دے اور اس كے ساتھ حسن سلوك نہ كرے، اور نہ ہى بچے كو ہم اس كى ترغيب دلاتے ہيں، كيونكہ باپ كا حق بہت زيادہ عظيم ہے، جس طرح ماں كا حق ہے اسى طرح باپ كا بھى حق عظيم ہے.
فقھاء كرام كا فيصلہ ہے كہ اگر بچہ ماں كى پرورش ميں ہو تو باپ كو اسے ديكھنے اور ملنے كا حق حاصل ہے، اور اسے ملنے سے روكا نہيں جا سكتا.
اس ميں اختلاف ہے كہ كتنے عرصہ بعد باپ بچے كو ملے اس مسئلہ ميں حنابلہ نے عرف عام كو مرجع قرار ديا ہے، مثلا وہ ہفتہ ميں ايك بار بچے كو ملنے آئے، فقھاء نے تنبيہ كى ہے كہ خاوند اور بيوى كے مابين جدائى اور عليحدگى كے بعد وہ آپس ميں اجنبى ہونگے، اس ليے اس كا خيال ركھنا ضرورى ہے، اگر وہ بچے كو ملنے بچے كى ماں كے گھر جاتا ہے تو وہاں زيادہ دير تك مت بيٹھے، اور مطلقہ عورت كے ساتھ خلوت بھى نہيں ہونى چاہيے اور مطلقہ عورت كو حق حاصل ہے كہ وہ اسے اپنے گھر ميں داخل ہونے سے منع كر سكتى ہے، ليكن بچہ والد كو ملنے گھر سے باہر جائيگا.
اور اگر بچہ بيمار ہو جائے تو باپ كو اپنے بچے كى عيادت كرنے سے نہيں روكا جا سكتا، اور اسى طرح ہر حقدار كو اس كا حق ديا جائيگا "
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 17 / 317 ) اور المغنى ابن قدامہ ( 8 / 193 ).
آپ كو يہ معاملہ سمجھنا چاہيے، اور كوشش كريں كہ باپ اور بيٹے كے درميان تفريق كى كوشش مت كريں، يا پھر بيٹے كے دل ميں باپ سے بغض و كراہت كا بيج مت بوئيں، كيونكہ ايسا كرنا ـ حرام ہونے كے ساتھ ساتھ ـ بچے كے اخلاق اور سلوك كے ليے بھى نقصاندہ ہے.
اور اگر آپ كو خدشہ ہے كہ بيٹا اپنے والد كے كچھ برے اخلاق سے متاثر ہو سكتا ہے، تو اس كو آپ اچھى تربيت اور راہنمائى كے ذريعہ ختم كر سكتى ہيں، ليكن باپ كے متعلق اس كے ذہن كو غلط مت بنائيں، يا بيٹے كے ذہن ميں باپ كا غلط تصور نہ بٹھائيں.
حاصل يہ ہوا كہ آپ كے ليے باپ كو بيٹے سے ملنے نہ دينا جائز نہيں، اور اسى طرح باپ كے ليے بھى جائز نہيں كہ وہ ماں كو بيٹے سے ملنے سے مت روكے، بلكہ آپ كے ليے ضرورى و واجب ہے كہ اسے بيٹے كو ملنا ممكن بنائيں يا تو اپنے گھر ميں اور اس وقت آپ كے پاس محرم ہونا ضرورى ہے تا كہ جب وہ آپ كے گھر آئے تو آپ امن ميں ہوں، يا پھر گھر سے باہر ملنے ديں اور اگر آپ دونوں كسى عرصہ كو متعين كر ليں مثلا ہر ہفتہ يا دو ہفتے بعد يا كوئى اور مدت تو يہ بہتر ہے، اور اس ميں اپنے بچے كى تربيت كى كوشش كريں، اور بچے كو اپنے باپ كے متعلق اخلاق حميدہ اختيار كرنے كى كوشش كريں.
اور كوشش كريں كہ بچہ اپنے باپ كے متعلق كوئى بغض و كينہ اور ناراضگى مت ركھے، كيونكہ ايسا كرنا حرام ہے اس ليے كہ يہ قطع رحمى كى دعوت ديتا ہے.
اللہ عزوجل كا فرمان ہے:
﴿ تم سے يہ بھى بعيد نہيں كہ اگر تمہيں حكومت مل جائے تو تم زمين ميں فساد بپا كر دو، اور رشتے ناطے توڑ ڈالو، يہ وہى لوگ ہيں جن پر اللہ پھٹكار ہے اور جن كى سماعت اور آنكھوں كى روشنى چھين لى گئى ہے ﴾محمد ( 22 - 23 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" قطعى رحمى كرنے والا جنت ميں داخل نہيں ہو گا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 4637 ).
اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" جب بيوى زوجيت والے گھر سے نكل جائے، يا مثلا خاوند اور بيوى كے درميان طلاق كى وجہ سے عليحدگى ہو جائے اور ان كا كوئى بچہ بھى ہو تو شريعت اسلاميہ ميں ان دونوں ميں سے كسى كے ليے بھى جائز نہيں كہ وہ بچے كو ملنے اور ديكھنے سے منع كريں.
اس ليے اگر بچہ ماں كى پرورش ميں تو اس كے ليے باپ كو بچہ ديكھنے اور اس سے ملنے سے روكنا جائز نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے صلہ رحمى كو واجب كرتے ہوئے فرمايا ہے:
﴿ اور اللہ كى عبادت كرو اور اس كے ساتھ كسى دوسرے كو شريك مت كرو، اور والدين اور رشتہ داروں كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آؤ ﴾النساء ( 36 ).
اور حديث ميں ہے:
" جس كسى نے بھى والدہ اور اس كے بچے كے درميان تفريق اور جدائى ڈالى تو اللہ تعالى روز قيامت اس كے اور جس سے وہ محبت كرتا ہے كے درميان جدائى ڈال دے گا " انتہى
اس حديث كو ترمذى نے ( 1204 ) ميں روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں حسن قرار ديا ہے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 21 / 205 ).
اس مسئلہ ميں آپ شرعى حكم جان چكى ہيں، لہذا آپ لوگ ان غير شرعى عدالتوں ميں جانے سے اجتناب كريں، اور تا كہ باپ كو بيٹے سے ملاقات نہ كرنے دى جائے، اگرچہ آپ كو اپنے اوپر ظلم و زيادتى كرنے والے كو منع كرنے يا بچے سے محروم كرنے كى وجہ سے عدالتوں ميں جانے كا حق بھى حاصل ہو تو بھى ان غير شرعى عدالتوں ميں مت جائيں.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ بچے كى تربيت ميں آپ كى معاونت فرمائے، اور آپ كو خير و فلاح اور كاميابى اور صحيح راہ كى توفيق سے نوازے.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ