سوال
میں ایک سرکاری ادارے میں انچارج ہوں، بسا اوقات میں اپنے آفس سے اپنے ذاتی کام نمٹانے کی غرض سے چلا جاتا ہوں، یہاں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس سے عارضی اور جزوی چھٹی کی اجازت طلب کروں، ڈیوٹی کے دوران جس وقت میں نکلتا ہوں اس سے ادارے پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا، نیز میرے پاس موبائل موجود ہے دفتر میں کسی بھی ضرورت کے وقت مجھ سے فوری رابطہ بھی ممکن ہے، اور عام طور پر ڈیوٹی کا وقت ختم ہونے کے بعد بھی کچھ دیر دفتر میں رکتا ہوں، تو اپنے آفس سے باہر جو وقت ذاتی کام لے لیے گزارتا ہوں اس کا کیا حکم ہے؟ اس بارے میں ہمیں فتوی دیں۔ اللہ تعالی آپ کو ڈھیروں برکتوں سے نوازے۔
جواب کا متن
الحمد للہ.
ملازمت کے دوران اتنی دیر جائے ملازمت پر رہنا لازم ہے جس پر دو طرفہ معاہدہ ہے، چاہے آپ کے پاس جائے ملازمت پر کام ہو یا نہ ہو؛ کیونکہ ملازمت یا عقدِ اجارہ میں یہ چیز شامل ہوتی ہے۔ چنانچہ ملازم شخص اجیرِ خاص ہوتا ہے، اور اجیر خاص کے لیے اجرت مدت کے مطابق دی جاتی ہے، چنانچہ مخصوص مقدار میں وقت صرف اسی ملازمت کے لیے مختص کرنا لازم ہے۔ اور اگر ملازمین سے یہ کہہ دیا جائے کہ جب کام ہو تو تبھی آپ نے دفتر آنا ہے تو پھر ادارے معطل ہو جائیں گے؛ کیونکہ معاملات کنٹرول میں نہیں ہوں گے۔
ملازمت کے بارے میں یہی اصولی موقف ہے کہ ملازمت اجارہ خاصہ کا عقد ہوتا ہے جس میں مقررہ وقت دینا لازم ہے۔
تاہم اس سے ایسی صورت مستثنی کی جائے گی جس میں ملازم کو کسی ایسے کام یا مفاد کے لیے نکلنا پڑے جسے ڈیوٹی کے بعد تک مؤخر کرنے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تو پھر انتظامیہ کی اجازت سے جا سکتا ہے۔
اور اگر صورت حال ایسی ہو کہ جیسے آپ نے سوال میں ذکر کی ہے کہ ادارے میں آپ سے اوپر کوئی نہیں ہے جس سے آپ اجازت لیں تو پھر ہم یہ کہیں گے کہ: آپ کسی ایسی ضرورت کی بنا پر ادارے سے جا سکتے ہیں جسے ڈیوٹی کے بعد تک مؤخر کرنا مشقت کا باعث ہو، یہاں آپ اپنے آپ کو عام ملازم کی طرح سمجھیں گے، یعنی آپ اپنے آپ کو بھی صرف اتنی ہی اجازت دیں گے جتنی آپ دوسروں کو دیتے ہیں، بلکہ آپ کو دوسروں کے لیے عملی نمونہ ہونا چاہیے یعنی آپ اپنے آپ پر دوسروں سے زیادہ سختی کریں، اور زمینی حقائق بھی کچھ اسی طرح کے ہیں کہ جب ادارے کا ذمہ دار فرد ڈیوٹی سے جلدی چلا جائے تو پھر ماتحت ملازمین بھی جلدی نکلنے کی کرتے ہیں اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی برتتے ہیں، اور پھر خرابی پورے ادارے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
آپ کے پاس موبائل ہے یا آپ ڈیوٹی کے بعد بھی آفس میں بیٹھے رہتے ہیں اس سے آپ کے لیے کوئی گنجائش نہیں نکلتی؛ کیونکہ ذمہ داری کی ادائیگی دوران وقت ہوتی ہے وقت گزرنے کے بعد نہیں ہوتی۔ دفتر میں پورا وقت دینا انسان کو سونپی گئی ذمہ داری میں شامل ہے چاہے ادارے میں کوئی نگران ہے یا نہیں ؛ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم [سونپی گئی ] ذمہ داری ان کے مستحقین تک پہنچاؤ۔[النساء: 58]
ابن کثیر رحمہ اللہ تفسیر ابن کثیر (1/673) میں کہتے ہیں:
مریض کس طرح وضو کر کے نماز ادا کرے؟
سوال
مریض کس طرح وضو کر کے نماز ادا کرے؟ براہ کرم تفصیل سے بتلائیں، شکریہ
جواب کا متن
الحمد للہ.
"اول: مریض کے لیے طہارت:
1- مریض پر بھی اسی طرح حدث اصغر اور اکبر سے طہارت حاصل کرنا ضروری ہے جیسے تندرست آدمی پر لازم ہوتا ہے، اس لیے حدث اصغر کی صورت میں وضو کرے اور حدث اکبر کی صورت میں غسل کرے۔
2-جو مریض پیشاب یا پاخانہ کرے تو اس کے لیے پانی سے استنجا کرنا یا مٹی کے ڈھیلے استعمال کرنا یا ان کے قائم مقام [ٹشو پیپر وغیرہ] کا استعمال کرنا لازم ہے۔
مٹی کے ڈھیلے استعمال کرتے ہوئے تین پاک ڈھیلے استعمال کرنا لازم ہے، نیز لید یا ہڈی ، یا کوئی بھی کھانے کی چیز ، اور کوئی بھی قابل احترام چیز استنجا کرنے کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ مٹی کے ڈھیلے یا ان سے ملتی جلتی کوئی چیز مثلاً: ٹشو پیپر وغیرہ استعمال کرے اور پھر پانی سے جگہ صاف کرے؛ کیونکہ مٹی کے ڈھیلے سے نجاست زائل ہو گئی اور پانی سے وہ جگہ صاف ہو جائے گی اس طرح اچھی طرح طہارت حاصل ہو گی۔
انسان کو پانی کے ساتھ یا مٹی وغیرہ سے استنجا کرنے کی چھوٹ ہے، اگر ان میں سے کسی ایک پر اکتفا کرنا چاہے تو پانی پر اکتفا کرنا افضل ہے؛ کیونکہ اس سے نجاست بھی زائل ہوتی ہے اور جگہ بھی صاف ہو جاتی ہے حتی کہ نجاست کے اثرات بھی باقی نہیں رہتے، تو پانی زیادہ صفائی کا باعث بنتا ہے، اور اگر ڈھیلے استعمال کرنا چاہے تو تین ڈھیلے کافی ہیں بشرطیکہ جگہ صاف ہو جائے ، اور اگر جگہ تین ڈھیلے استعمال کرنے پر بھی صاف نہیں ہوتی تو پھر چوتھا اور پانچواں ڈھیلا بھی شامل کر لے یہاں تک کہ جگہ صاف ہو جائے، افضل یہی ہے کہ طاق عدد میں ڈھیلے استعمال کرے۔
دائیں ہاتھ سے استنجا کرنا جائز نہیں ہے، لیکن اگر بایاں ہاتھ کٹا ہوا ہے، یا ہاتھ ٹوٹا ہوا ہے یا بیماری کی وجہ سے بایاں ہاتھ استعمال نہیں کر سکتا تو پھر ضرورت کی بنا پر دائیں ہاتھ سے استنجا کر لے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔