سوال
تجارت کے لیے سنت طریقہ کار کیا ہے؟ مجھے یہ جاننے کا شوق ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کس طرح تجارت کیا کرتے تھے، آپ سامان تجارت کیسے پیش کرتے تھے؟ قیمت اور سامان کا تبادلہ کیسے کرتے؟ اور اگر واپس کرنی ہو تو کیسے کرتے تھے؟
جواب کا متن
الحمد للہ.
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا تجارتی لین دین اور خرید و فروخت کے لیے طریقہ کار کا خلاصہ درج ذیل نکات میں ممکن ہے:
1-نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بعثت سے قبل اپنے چچا ابو طالب کے ہمراہ تجارت کی تھی، اسی طرح سیدہ خدیجہ کے پاس بھی کام کیا، اور اس غرض سے ملک شام کا سفر بھی کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم مقامی سطح پر منعقد ہونے والے مجنہ اور عکاظ جیسے بازاروں میں بھی لین دین کرتے تھے، یہ دونوں دورِ جاہلیت کے کاروباری میلے تھے تاجر حضرات دور دور سے ان میں خرید و فروخت کے لیے شرکت کرتے تھے۔
2-نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی اپنے لیے چیزیں خریدا کرتے تھے جیسے کہ سیدنا عمر کے اونٹ اور پھر سیدنا جابر رضی اللہ عنہما کے اونٹ کے واقعہ میں آتا ہے، یا پھر آپ اپنے لیے چیز خریدنے کی ذمہ داری کسی کو سونپ دیتے تھے جیسے کہ سیدنا عروہ بن ابو الجعد البارقی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں قربانی کے جانور یا مطلق بکری کی خریداری کے لیے ایک دینار دیا، تو انہوں نے ایک دینار سے دو بکریاں خریدیں اور پھر دونوں میں سے ایک بکری ایک دینار کے عوض فروخت کر دی، اب آپ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک دینار بھی لے آئے اور بکری بھی، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے لیے خرید و فروخت میں برکت کی دعا کر دی، تو آپ رضی اللہ عنہ مٹی بھی خریدتے تو اس میں بھی انہیں نفع ہوتا تھا۔
اس روایت کو ترمذی: ( 1258 ) ، ابو داود: ( 3384 ) ، ابن ماجہ: (2402 ) نے بیان کیا ہے، نیز البانی ؒ نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
3- نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم تاجر برادری کو حسن سلوک سے پیش آنے ، سچ بولنے اور صدقہ کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔
الف: چنانچہ سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (خریدار اور دکاندار کو جدا ہونے تک بیع جاری رکھنے یا ختم کرنے کا اختیار ہے، اگر دونوں سچ بولیں اور ہر ایک واضح بات کرے تو ان کی بیع میں برکت ڈال دی جاتی ہے، اور اگر دونوں بات چھپائیں اور جھوٹ بولیں تو ان کی بیع کی برکت مٹا دی جاتی ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (1973) اور مسلم : (1532) نے روایت کیا ہے۔
ب: اسماعیل بن عبید بن رفاعہ اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ ایک بار وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ عید گاہ کی جانب گئے تو لوگوں کو وہاں خرید و فروخت کرتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اے تاجروں کی جماعت!) اس پر سب لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب متوجہ ہوئے اور اپنی گردنیں اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب دیکھنے لگے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً تاجر قیامت کے دن گناہگار حالت میں اٹھائے جائیں گے، ماسوائے اس کے جو تقوی الہی اپنائے، حسن سلوک سے پیش آئے اور سچ بولے۔)
اسے ترمذی: ( 1210 ) اور ابن ماجہ: ( 2146 ) نے روایت کیا ہے، نیز البانیؒ نے اسے " صحيح الترغيب " ( 1785 ) میں صحیح قرار دیا ہے۔
ج: قیس بن ابو عرزہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے: (تاجرو! خرید و فروخت میں لغو باتیں اور قسمیں شامل ہو جاتی ہیں، تم اپنی تجارت میں صدقہ ملایا کرو)
اس روایت کو امام ترمذی: ( 1208 ) ، ابو داود: ( 3326 ) ، نسائی: (3797 ) ، اور ابن ماجہ: ( 2145 ) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔