پہلے منگنى كرنے والى سے موافقت كے بعد دوسرا رشتہ آنے والے كو قبول كرنا
ايك عورت كى ايك شخص سے منگنى ہوئى ہے، ليكن وہ دين والا نہيں ہے، اور يورپ ميں رہتا ہے، لڑكى كى عمر تيس برس ہے، بڑى عمر ہونے كى وجہ سے اسے خدشہ ہے كہ اس كى منگنى ٹوٹ جائيگى، اس كے ليے دين والے نوجوان كا رشتہ آيا ہے اور اسے يہ علم نہيں كہ لڑكى كى پہلے منگنى ہو چكى ہے، كيا اس لڑكى كے ليے جائز ہے كہ وہ اس نوجوان لڑكے كو ديكھ لے، پھر اگر يہ رشتہ منظور ہو جائے تو كيا پہلى منگنى ختم كر سكتى ہے يا كہ اس رشتہ سے پہلے والى منگنى ختم كرنا ضرورى ہے ؟
الحمد للہ:
اول:
منگنى كوئى شرعى عقد اور لازم نہيں، بلكہ يہ تو صرف شادى كرنے كا ايك وعدہ ہوتا ہے جو طرفين كى جانب سے ايك دوسرے سے كيا جاتا ہے.
اس ليے ہر ايك كو حق حاصل ہے كہ جب چاہے وہ منگنى ختم كر سكتا ہے، اور خاص كر جب يہ واضح ہو كہ طرفين ميں سے كوئى ايك اخلاقى يا دينى طور پر شادى كے قابل نہيں، يا كوئى اور عذر ہو.
ابن قدامہ مقدسى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب لڑكى كا ولى اپنى لڑكى مصلحت ديكھے تو اس كے ليے منگنى ختم كرنا مكروہ نہيں، كيونكہ يہ اس لڑكى كا حق ہے اور وہ يعنى ولى لڑكى كى جانب سے ديكھنے ميں نائب ہے، اس ليے جس ميں وہ مصلحت ديكھے تو قول رشتہ نامنظور كرنے ميں كوئى كراہت نہيں.
اور جب لڑكى اپنے منگيتر كو ناپسند كرے تو اس كے ليے بھى رد كرنا مكروہ نہيں؛ كيونكہ يہ پورى عمر كا عقد ہوتا ہے جس ميں ہميشہ ضرر و نقصان ہوگا، اس ليے اسے احتياط برتنے كا حق حاصل ہے، اور وہ اپنے حصہ ميں غور كرنے كا حق ركھتى ہے.
اور اگر وہ دونوں بغير كسى غرض كے نامنظور كريں اور منگنى توڑ ديں تو يہ مكروہ ہے؛ كيونكہ اس ميں وعدہ خلافى ہوتى ہے، اور بات سے پھر جانا ہے، ليكن حرام نہيں؛ كيونكہ ابھى حق اس پر لازم نہيں ہوا " انتہى
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 110 ).
دوم:
جب عورت كے ليے منگنى كے دوران ہى كوئى دوسرا رشتہ آ جائے تو اس مسئلہ كى دو صورتيں ہيں:
پہلى صورت:
دوسرا شخص پہلے شخص كى منگنى كا علم ركھتا ہو، اور اسے علم ہو كہ اس عورت كى پہلے منگنى ہو چكى ہے؛ تو اس حالت ميں اس كے ليے نكاح كا پيغام دينا يا اس عورت سے شادى كرنا حلال نہيں.
اور نہ ہى اس عورت كے ليے حلال ہے كہ وہ اس رشتہ كو منظور كرے، اور نہ ہى اس رشتہ كو ديكھنا جائز ہے، كيونكہ شرعى نصوص مسلمان بھائى كى منگنى پر منگنى كرنے كى حرمت پر دلالت كرتى ہيں.
اور اس ليے بھى كہ عورت كا اس رشتہ كو منظور كرنے ميں گناہ و ظلم پر معاونت كرنا ہے.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" فقھاء كرام كا اتفاق ہے كہ جس عورت كى منگنى ہو چكى ہو اور اس كى منگنى كا علم ہو چكا ہو اور رشتہ منظور ہونے كا علم ہو جائے تو كسى دوسرے شخص كا اسے شادى كا پيغام دينا حرام ہے " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 12 / 248 ).
اس كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 115904 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.
دوسرى صورت:
دوسرے شخص كو منگنى كا علم نہ ہو؛ تو اس صورت ميں اس كے ليے منگنى كا پيغام دينے ميں كوئى حرج نہيں.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" جس عورت كے متعلق علم نہ ہو كہ اس كى منگنى ہو چكى ہے يا نہيں، اس سے منگنى كرنے والے كا رشتہ قبول كر ليا گيا ہے يا رد كر ديا گيا ہے، تو جو شخص اس كى منگنى كا علم نہيں ركھتا اس كے ليے جائز ہے كہ وہ اسے شادى كا پيغام دے، كيونكہ اصل ميں مباح ہے، اور پيغام دينے والا جہالت كى بنا پر معذور ہے " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 19 / 196 ).
اور اسى طرح جس عورت كى منگنى ہو چكى ہے اس كے ليے يا اس كے ولى كے ليے دوسرا رشتہ قبول كرنے يا رد كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" حلال يا حرام ہونے ميں منگنى كے جواب ميں عورت بھى مرد كى طرح ہے؛ كيونكہ منگنى عقد كے ليے ہے، تو يہ دونوں اس كى حلت اور اس كى حرمت ميں مختلف نہيں " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 112 ).
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" منگنى كے ليے آنے والے شخص كو جواب دينے كا عورت اور اس كے ولى كے ليے حلال اور حرام ہونے ميں اس منگنى كا پيغام دينے والے كى طرح ہى ہے " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 19 / 194 ).
لہذا اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر جب عورت ديكھے كہ اس كے ليے دوسرا رشتہ زيادہ مناسب اور بہتر ہے اور خاص كر جب دوسرا صالح اور دين والا ہو اور پہلا ايسا نہيں تو اسے قبول كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور پھر پہلے سے اپنى منگنى ختم كر دے.
دوسرا رشتہ قبول كرنے كے ليے پہلى منگنى ختم كرنا شرط نہيں ہے؛ كيونكہ منگنى كوئى لازمى عقد نہيں.
سعودى عرب ميں فتاوى كميٹى سے پوچھے گئے سوالات ميں يہ بھى شامل ہے كہ:
ايك شخص نے ايك عورت كا رشتہ اس كے والدين سے مانگا، تو انہوں نے ہاں كردى، اور پھر وہ شخص ايك برس يا اس سے زيادہ كے ليے سفر پر چلا گيا، پھر ايك اور شخص نے اس عورت كا رشتہ طلب كيا تو كيا والدين اس دوسرے شخص كا رشتہ قبول كريں يا نہ كريں ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" اگر عورت كے والدين نے پہلے شخص كے ساتھ صرف منگنى كى تھى، تو عورت كے والدين كو حق حاصل ہے كہ اگر وہ اپنى بيٹى كى اس ميں مصلحت ديكھتے ہيں اور وہ بھى راضى ہوتى ہے تو دوسرا رشتہ قبول كرنے ميں كوئى حرج نہيں " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 171 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 131363 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
عورت پر واجب ہے كہ جب اس كے ايك سے زائد رشتے آئيں تو اسے حسن اخلاق اور دين مستقيم والا شخص كو اختيار كرنا چاہيے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 69964 ) اور ( 126914 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ