کیا روزہ افطار کرتے ہوئے طاق عدد میں کھجوریں کھانا مستحب ہے؟
سوال
طاق عدد میں کھجوریں کھا کر روزہ افطار کرنا نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہے؟ نیز طاق عدد میں کھجوریں کھانا صرف رمضان میں مسنون ہے یا غیر رمضان میں بھی سنت ہے؟
جواب کا متن
الحمد للہ.
نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے دو مواقع کے علاوہ ایسا کہیں ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم طاق عدد میں کھجوریں کھانے کا اہتمام کرتے ہوں:
پہلی جگہ: عید الفطر کی نماز کے لیے گھر سے نکلتے وقت۔
اس کی دلیل صحیح بخاری: (953) میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : (آپ صلی اللہ علیہ و سلم عیدالفطر کے دن نماز کے لیے اس وقت تک نہیں نکلتے تھے جب تک کھجوریں نہ کھا لیتے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم طاق عدد میں کھجوریں کھاتے۔)
دوسری جگہ: نہار منہ سات کھجوریں کھانا۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو شخص بھی نہار منہ سات عجوہ کھجوریں کھائے تو اس دن اسے زہر یا جادو نقصان نہیں دے گا۔) صحیح بخاری: (5445)، صحیح مسلم: (2047)
جبکہ روزہ افطار کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اتنا تو ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم تازہ یا خشک کھجوریں استعمال کرتے تھے، یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مخصوص تعداد میں کھجوریں کھانے کا اہتمام کیا ہو، یا طاق تعداد میں کھجوریں تناول فرمائی ہوں۔
نیز اس حوالے سے ذکر کی جانے والی روایت ضعیف ہے۔
جیسے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: (آپ صلی اللہ علیہ و سلم تین کھجوروں یا کسی ایسی چیز سے افطاری کرنا پسند کرتے تھے جو آگ پر پکی ہوئی نہ ہو) مسند ابو یعلی: (3305)
لیکن یہ روایت صحیح نہیں ؛ضعیف ہے، دیکھیں: "سلسلة الأحاديث الضعيفة" از البانیؒ (966)
تو کچھ اہل نے صرف انہی چیزوں میں طاق عدد کا خیال رکھنے کو اختیار کیا ہے جن کا تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ملتا ہے، اس کے علاوہ جگہوں میں طاق عدد کا خیال نہ رکھا جائے۔
چنانچہ الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"طاق عدد میں کھجوریں کھا کر روزہ افطار کرنا واجب بلکہ سنت بھی نہیں ہے کہ تین، پانچ، یا سات یا نو کھجوریں افطاری میں تناول کرے، صرف عید الفطر کے دن ثابت ہے؛ کیونکہ یہ ثابت ہے کہ: (آپ صلی اللہ علیہ و سلم عیدالفطر کے دن نماز عید کے لیے کھجوریں کھائے بغیر نہیں جاتے تھے اور آپ طاق عدد میں کھجوریں لیتے ۔) اس کے علاوہ کسی بھی موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے طاق عدد میں کھجوریں کھانے کا اہتمام نہیں کیا۔" ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (11/ 2)
جبکہ کچھ اہل علم نے اس معاملے میں وسعت اختیار کی ہے، انہوں نے اس حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان: (یقیناً اللہ تعالی وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔)اس حدیث کو امام بخاری: (6410) اور مسلم : (2677) نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
اسی طرح مصنف عبد الرزاق: (5/ 498) میں یہ حدیث بیان ہوئی ہے، پھر اس کے بعد امام عبد الرزاق کہتے ہیں: "ایوب کہتے ہیں: ابن سیرین ہر چیز طاق عدد میں استعمال کرنے کو مستحب سمجھتے تھے، حتی کہ کھانے کی چیزیں بھی طاق عدد میں استعمال کرتے۔" اس اثر کی سند صحیح ہے۔
اسی طرح "إعانة الطالبين" (2/278) میں ہے کہ:
"بہتر یہ ہے کہ روزہ تین کھجوروں سے افطار کرے، اور اگر کھجور نہ ہو تو کوئی بھی چیز تین عدد لے۔" ختم شد
علامہ الشیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے پوچھا گیا:
"کیا طاق عدد کا اہتمام ہر قسم کی مباح چیزوں میں ہو گا؟ مثلاً: قہوہ وغیرہ پیتے ہوئے بھی؟ یا پھر صرف انہی چیزوں کو طاق عدد میں لیا جائے گا جس کے متعلق نص موجود ہے؟
تو آپ حفظہ اللہ نے جواب دیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: تمام اقوال و افعال میں طاق عدد کا اہتمام کیا جائے یہ سنت ہے۔" ختم شد
اسی طرح الشیخ عبد الکریم الخضیر حفظہ اللہ سے پوچھا گیا:
کیا کھانے پینے میں طاق عدد کا خیال رکھتے ہوئے بھی اللہ تعالی کی عبادت ہو سکتی ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"جی ہاں، ہو سکتی ہے؛ لہذا جب کھجوریں وغیرہ کھائے تو طاق عدد میں تین، سات طاق عدد میں کھائے؛ کیونکہ اللہ تعالی وتر ہے اور وتر پسند فرماتا ہے۔ " ختم شد
ایسے موقع پر طاق عدد کا اہتمام کرنے والا شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عیدالفطر کے دن طاق کھجوروں کا اہتمام کرنے کو دلیل بنا سکتا ہے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہار منہ طاق عدد میں کھجوریں لینے کی ترغیب دلائی ہے، تو جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے طاق عدد میں تازہ اور خشک کھجور عید الفطر کے دن منتخب کی ہیں تو اسی طرح افطاری کے وقت بھی یہی معاملہ ہونا چاہیے۔
تاہم اس حوالے سے ان شاء اللہ وسعت ہے، لہذا اگر کوئی شخص طاق عدد اپنائے کہ سابقہ عمومی دلائل اس کی ترغیب میں آ سکتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مذکورہ جگہوں میں عمل بھی اس کی تائید کرتا ہے، یا پھر طاق عدد میں کھجوریں لینے کے متعلق مخصوص حدیث ضعیف ہونے کے باوجود بھی اسے دلیل بنائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اور اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ تازہ یا خشک کھجوروں سے روزہ افطاری کسی بھی طرح سے ہو سکتی ہے اس کے لیے طاق عدد کا اہتمام کرنے کی ضرورت نہیں ہے ؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے خصوصی طور اس کا اہتمام ثابت نہیں ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ